ملک میں دوسری مرتبہ آئینی اور جمہوری حکومت گزشتہ دنوں مدت پوری کر کے رخصت ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں ایک حد تک تسلی بخش ہے، کیونکہ اس پیش رفت کے نتیجے میں ملک کے اندر سیاسی استحکام اور آئین کی بالا دستی کا تصور مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 60روز کے اندر ایماندارانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ، قانون کے مطابق اور دھونس دھاندلی کے بغیر انتخابات کا انعقاد وہ دستوری تقاضا ہے جس سے عہدہ برآ ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے مبصرین آنے والے انتخابات کے بروقت انعقاد کو خصوصی اہمیت دے رہے ہیں اور اس حوالے سے بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ملک میں سیاسی استحکام اور معیشت کو منفی اثرات سے بچانے کے لئے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ خطے کے تزویراتی حالات، سیاسی استحکام اور جمہوری ارتقاء کے لئے بروقت انتخابی عمل اہمیت کا حامل ہے۔ خدانخواستہ ہمارے کسی شعوری یا غیر شعوری اقدام سے ملک دشمن طاقتوں کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع میسر آ گیا تو اس سے بڑھ کر اور کوئی ناکامی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ان تمام قوتوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جو کسی بھی حوالے سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے خلاف ظاہری اور خفیہ کوششیں کر رہے ہیں۔
جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھ کر ہی جمہوری نظام کی بنیاد مستحکم کی جا سکتی ہے اور ایک محبِ وطن اور فعال قیادت آگے لائی جا سکتی ہے ۔ ہم سب کو سیاسی جماعتوں سے چاہے لاکھ شکایتیں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ہمارے لئے قابلِ قبول ہیں اور وہ ہماری بات بھی سنتے ہیں۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بذریعہ ووٹ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں۔ ہم تبدیلی ضرور چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرتے اگر حقیقتاً نظام بدلنا ہے تو مخلص اور محبِ وطن قیادت کو برسرِ اقتدار لانا ہے اور واقعتاً ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو صرف زبانی کلامی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میدانِ عمل ہمارا منتظر ہے۔ سیاسی منفی مقاصد اور طرف داریوں کو پسِ پشت ڈال کر وسیع قومی مفاد میں مستقبل کے لئے ایک بہتر فیصلہ ہی دانشمندی ہے۔ بعض لوگ اس منفی سوچ کے تحت انتخابی عمل سے نالاں رہتے ہیں کہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے لہٰذا برائے نام انتخابات کا کیا فائدہ، بالفرض ایسا بھی ہے تو تو ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں صرف یہ سوچ کر انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہئے کہ آخر کب تک ان کی رائے کو دبایا جا سکتا ہے، عوام کی طاقت کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔
انتخابی نظام میں انہی قباحتوں کی وجہ سے ہی عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد قائم نہیں ہو رہا اور بادلِ نخواستہ انتخابی عمل میں شریک ہونے والے لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ ان کے ووٹ سے سسٹم کی تبدیلی ناممکنات میں شامل ہے۔ اسی بنیاد پر انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی کم رہتا ہے، جس سے امیدواروں کو دھن، دھونس، دھاندلی کی بنیاد پر جعلی ووٹ بھگتانے کا موقع ملتا رہا۔ ابتدائی 10سال چھوڑ کر گزشتہ 60سالوں کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں ایک چیز کا شدت سے احساس ہو گا کہ ہمارے ہاں ایک بھرپور سیاسی قیادت کا فقدان رہا ہے۔ اس کی وجوہات بھی بہت سی ہیںجن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ یہاں سیاسی نظام کو پنپنے کے مواقع بہت کم دئے گئے جس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک بھرپور سیاسی قیادت نکل کر سامنے نہ آ سکی۔ سیاسی قیادت کسی چھلنی سے نکل کر سامنے آ سکتی ہے تو وہ صرف جمہوری تسلسل سے ہی ممکن ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوری تسلسل قائم ہی نہ ہو سکا اور نہ ہی ہم آج تک کوئی ایسا قومی ادارہ تشکیل دے پائے جو مکمل غیر جانبداری سے انتخابات کرانے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ہماری کسی بھی ملکی قیادت نے جاندار الیکشن کمیشن بننے ہی نہیں دیا۔ ہر حکومت نے اس ادارے سے فوائد اٹھانے کی بھرپور کوشش کی اور جس کا نقصان یہ ہوا کہ اس ادارے کی ساکھ نہ بن سکی اور ہمارا جمہوری نظام وقت کے تقاضوں سے ہم آنگ ہی نہ ہو سکا، ہم ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔
حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی بھی طریقے سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے نیچے اترنے نہ دیا جائے کیونکہ ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جب بھی جمہوریت ڈی ریل ہوتی ہے آمریت قائم ہو جاتی ہے جس کے خلاف جمہوریت پسند قوتوں کو ہر بار طویل جد و جہد کرنا پڑتی ہے۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ اس کی 70سالہ تاریخ کا زیادہ تر حصہ آمریت کی نظر ہو گیا۔ جس سے اس ملک کی معیشت اور معاشرت دونوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جمہوری بساط کو لپیٹنے میں دن لگتے ہیں لیکن اس کی بحالی کے لئے دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں، اس میں راستہ کوئی بھی ہو عوام کے دلوں سے ہی جاتا ہے۔انتخابات وقت پر نہ ہوئے تو بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو گی،ان تمام قوتوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے جو کسی بھی حوالے سے انتخابات کے التواء کی ظاہری اور خفیہ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مزید کوئی پیش رفت ہوئی تو ملک کی وہ تمام سیاسی جماعتیں، بالغ نظر دانشور اور محبِ وطن عوام جو انتخابات کے بروقت انعقاد اور ملک کو جمہوریت کے راستے پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں ان کا فرض ہے کہ آگے بڑھ کر اس کا تدارک کریں۔یہ یقینی امر ہے کہ اگر ایک مرتبہ انتخابات ملتوی ہو گئے تو ہر روز ایک نیا جواز تراشا جائے گا اور ان قوتوں کے منفی عزائم کو پنپنے کا موقع ملے گا جن کے لئے آئین کی بالادستی اور جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے بروقت انتخابات کا انعقاد کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ایسی جمہوریت دشمن قوتیں سرگرم ہیں جن کو پاکستان کا آئینی و جمہوری ارتقاء ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ جمہوریت بچانی ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنا ہوں گے، وگرنہ ایک طوفان اٹھے گا اور ہر چیز کو بہا لے جائے گا۔