’’عرب بہار‘‘ (arab spring)کی ’’خوشبو‘‘ پورے عرب میں اس تیزی سے پھیلی کہ ’’بادشاہتیںاورآمریتیں ‘‘ لرزاں بر اندام ہو گئیں سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ ’’عرب بہار ‘‘ تازہ ہوا کا ایسا جھونکا تھا جس سے کوئی عرب ملک متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا مصر، الجزائر،کویت، لیبیا، یمن، بحرین اور شام میں لاکھوں نوجوان اللہ، مملکت اور آزادی کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ قومی پرچم تھامے ان لوگوں نے میدانوں اور چوراہوں پر ڈیرے ڈال دیے۔ ابتدا میں آزادی کی یہ قومی تحریک جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالاتر تھی اور مظاہرین صرف قومی جھنڈے کے نیچے جمع تھے۔کسی شخصیت کے لیے زندہ باد و مردہ باد کی صدا نہ تھی، اور نعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتا ہے۔ آمروں کو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے اُن سے عزت کے ساتھ ارحل (تشریف لے جایئے)کی درخواست کی گئی۔ بدقسمتی سے یہ عظیم الشان تحریک شام، بحرین اور یمن میں فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگئی، جبکہ لیبیا میں قبائلی منافرت نے عوامی اخوت کی اس تحریک کو نفرت کے الائو میں تبدیل کردیا۔’’فراعنہ مصر ‘‘ کی سرزمین پہلی ریاست تھی جہاں ’’عرب بہار‘‘ کی خوشبونے اپنا کام کردکھا یا اور ڈاکٹر محمد مرسی کو اپنے ووٹ کی طاقت سے پہلا صدر منتخب کر لیا ۔ اخوان المسلمون کو مصر کو آمریت کے شکنجے سے نکالنے کے لئے خون کے کئی دریا عبور کرنا پڑے ۔ اخوان المسلمون کی قیادت اسی طرح کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے پھانسی کے تختوں پر جھول گئی جس طرح مشرقی پاکستان میں پاکستان کی افواج کے ساتھ مل کر مکتی باہنی سے لڑنے والے بنگالیوں نے پھانسی کی سزا قبول کر لی لیکن بنگلہ دیش کی حکومت سے معافی نہیں مانگی ۔ عراق کا صدر صدام حسین جس طرح درود پڑھتے ہوئے تختہ دار پر چڑھ گیا یہ بھی ہماری اسلامی تاریخ کا ایک شاندار واقعہ ہے۔ اخوان المسلمون کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے اس کی قیادت نے مصر کو اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے لئے جانوں کے نذرانے دئیے۔ اخوان المسلمون کے قائد شیخ احمد حسن عبد الرحمنٰ نے جنہوں نے ’’حسن البنا ‘‘ کے نام سے شہرت پائی کو1949ء میں قاہرہ میں شہید کر دیا گیا سید قطب اخوان المسلمون کے قائد تھے انہیں جمال عبد الناصر نے پھانسی دے دی مختلف اوقات میں اخوان المسلمون کی قیادت اور کارکنوں کو ’’تختہ دار ‘‘ پر لٹکایا جاتا رہا ’’فراعنہ مصر ‘‘ کی جیلیں بھری جاتی رہیں لیکن مصر میں اخوان المسلمون کمزور نہیں ہوئی اس کی جڑیں عوام میں پھیلی تھیں یہی وجہ ہے جب مصر کے عوام نے ’’عرب بہار‘‘ کی خوشبو محسوس کی تو صدیوں سے انسانی خون کے پیاسے ملک مصر کے’’التحریر سکوائر ‘‘ میں آزاد فضا میں زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والوں نے اپنے ’’خون ‘‘ سے ملک میں جمہوریت قائم تو کر دی لیکن عالمی سامراج نے مصر میں فلسطین دوست حکمران کو دوسال سے زائد عرصہ تک برداشت نہیں کیا ۔
وہ30جون 2012ء کو مصر کے پہلے’’ منتخب‘‘ صدر بنے اور3جولائی 2013ء کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا انقلاب مصر نے سالہاسال کی بادشاہت تو ختم کردی لیکن پھر آمریت کی ایک ایسی طویل سیا ہ رات مسلط کر دی گئی جو ختم ہونے کو نہیں آرہی تھی ۔1952میں محمد نجیب مصر کے پہلے صدر بنے 18جون 1953ء میں ان کی حکومت ختم ہو گئی پھر جمال ناصر کا دور شروع ہوا جو 1970ء میں ان کی وفات تک قائم رہا ۔ان کی وفات کے بعد انوار السادات 1970میں تیسرے صدر بنے ان کا دور حکومت 6اکتوبر1981ء تک رہا مصر پہلا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے’’ ناجائز ‘‘وجود کو تسلیم کیا انوار السادات نے اسرائیل کے ساتھ’’ امن‘‘ معاہدے پر دستخظ کئے جس کے گواہ امریکی صدر جمی کارٹر تھے انوار السادات قاہرہ میں سالانہ’’ وکٹری پریڈ ‘‘ کی سلامی لے رہے تھے تو ایک فوجی نے اپنی مشین گن سے انوار السادات کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔ ’’آپریشن بدر ‘‘ میں مصری فوجیوں نے جان کی قربانیاں دے کر نہر سویز عبور کر لی تھی اور اس کا کچھ حصہ اسرائیل سے واپس لے لیا ۔ حسنی مبارک 18سال تک مصر کے سیاہ سفید کے مالک رہے بالآخر ’’التحریر سکوائر‘‘ میں دی جانے والی جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں انہیں صدارت سے مستعفی ہونا پڑا انہوں نے 91سال کی عمر میں وفات پائی مصر کا صدر ملک کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر مرسی کی ماتحت فوج نے ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ان کو جیل میں ڈال دیا گیا ان کے خلاف مختلف مقدمات قائم کئے گئے جب ان کی موت واقع ہوئی تو اس وقت ان پر نام نہاد عدالت میں جاسوسی کا ایک مقدمہ چلایا جا رہا تھا جس میں ان پر’’ حماس‘‘ کو اہم قومی راز فاش کرنے کا الزام عائد کیا گیا ۔ ڈاکٹرمحمد مرسی جو ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہی تھے قید تنہائی نے انہیں عارضہ قلب میں مبتلا کر دیا مصر کے فوجی حکمران عبد الفتح السیسی ڈاکٹر محمد مرسی سے اس حد تک ’’خوفزدہ ‘‘ تھے انہیں’’ بلٹ پروف‘‘ شیشے کے پنجرے میں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے لایا جاتا تھا۔17جون 2019ء مصر کی تاریخ کا المناک دن ہے جس روز عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے شخص کا خون کیا گیا اسے عدالت میں لایا گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا لیکن اس فوری طبی امداد پہنچا کر جان نہیں بچائی گئی اور پھر رات کے اندھیرے میں خاموشی سے سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کے رویّے میں زندگی کی آخری سانس تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہاں،بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف ممالک میں احیائے اسلام کی تحریکیں برپا ہوئیں لیکن قید و بند اور شہادت کی آزمائشوں کی جو تاریخ مصر کی اخوان المسلمون نے رقم کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔آزمائش کے پل صراط سے جہاں مرد بھی گذرے اور خواتین بھی، لیکن کسی کے پائے استقلال میں ذرا بھر بھی لرزش نہیں آئی جدید مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی فوجی آمر کے سامنے نہ جھک کر تاریخ میں امر ہوگئے محمد مرسی کے الفاظ رہتی دنیا تک آمروں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف اعلان حق کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ہمارا مقصد حیات اللہ کی اطاعت ہے۔ ہمارے لیڈر محمدﷺ ہیں۔ ہمارا آئین قرآن ہے۔ جہاد ہماراراستہ ہے۔اللہ کی رضا کی خاطر جان دینا ہماری سب سے عزیز خواہش ہے۔ محمد مرسی نے مصری قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل کرنے کے لئے کام شروع کردیا تھا۔ اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ آئندہ کوئی آمر مصر کے عوام کے حق حکمرانی پر شب خون نہ مارے۔ جس کے لئے انہوں نے بطور صدر اپنے اختیارات میں اضافہ بھی کرلیا ۔ یہ وہ فیصلے تھے جو محمد مرسی کے تختہ الٹنے کی بڑی وجہ بنے۔فوجی اور سیکولر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی پر 28جون 2013کو محمد مرسی کے خلاف احتجاج شروع کیا گیاجس کو بہانا بنا کراُس وقت مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے صدر مرسی کو مسائل حل کرنے کے لئے 48 گھنٹوں کا وقت دے دیا اور دھمکی دی کہ بصورت دیگر وہ کوئی اور راستہ اختیار کریں گے تاہم محمد مرسی نے اس الٹی میٹم کو مسترد کردیا۔اور فوج کی بات ماننے کے بجائے اپنی حکومت جانے کو ترجیح دی۔ 3جولائی 2013 ء کو مصری فوج نے ان کے خلاف بغاوت کی اور ان کے وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی کی سربراہی میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیامحمد مرسی کو معزولی کے وقت ’حفاظتی حراست‘ میں لے کر گھر پر نظربند کیا گیا اور فوج کے سربراہ جنرل السیسی نے کہا کہ مرسی کو سابق صدر کا پروٹوکول دیا جارہا ہے لیکن چند ہفتے بعد انھیں بدنام زمانہ سجن الطرہ یا طرہ جیل منتقل کردیا گیا۔ تشدد کے جو طریقے یہاں اختیار کیے جاتے ہیں اسے سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہاں آنے والے نئے ملزموں کا استقبال ان کے ننگے جسم پر بچھو چھوڑکر کیا جاتا ہے جس کی بنا پر یہ قیدخانہ سجن العقرب یا بچھو جیل کے نام سے مشہور ہے۔۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے محمد مرسی کی موت کو شہادت قرار دیا امیر قطر شیخ تمیم بن احمد الثانی ، ایران اور ملائشیانے محمد مرسی کی وفات گہرے رنج و غم کا اظہار کیا لیکن بیشتر اسلامی ملکوں نے ’’خاموشی ‘‘اختیار کر کھی ہے تاہم پاکستان کی قومی اسمبلی میں مغفرت کے لئے دعا کرائی گئی، تاہم سینیٹ میں ڈاکٹر محمد مرسی کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے قرار داد منظور کی گئی۔
نوٹ بک/نواز رضا