لداخ کی بھارت چین جھڑپ نے عظیم جنوبی ایشیا کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ پھنکارتا شیش ناگ مودی بے ضرر کیچوا بن چکا ہے۔ نیپالی گورکھے قاتل مودی کو للکار رہے ہیں۔ شوریدہ سر بنگالی سر اٹھا رہے ہیں۔ سری لنکن بھی میدان میں آ نکلے ہیں اور تو اور بھوٹانی تاریخ میں پہلی بار مودی سے ‘‘حساب کتاب’’ مانگ رہے ہیں صرف مالدیپ والے دور گہرے سمندروں میں چاروں اور سے تلاطم خیز سمندروں میں گھرے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔چین نے ابھی بندوق نہیں اٹھائی اور مودی ’امن،مذاکرات‘ کا راگ ملہار الاپے جارہا ہے ، کنگفو اور کراٹے کے ماہر چینی فوجی دستوں نے ’بھارتی فوجیوں‘ کی وہ درگت بنائی ہے کہ الامان الحفیظ,چین نے واضح کردیا ہے کہ بھارتی منطق قبول کرلی جائے تو دنیا میں افراتفری پھیل جائے گی اور اسی بھارتی دلیل پر پھر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر کو چین آزاد کرائے گا۔ چین نے بھارت کی ’ٹھکائی‘ کی تو بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان کی ’’آزادی وخودمختاری‘‘ کی سانسیں چلنے لگی ہیں، نیپال کے ریڈیو پر جنگی ترانے اور آزادی کے نغمے چلنے شروع ہوگئے ہیں، لیہہ اور جموں وکشمیر کے رہائشی آپس میں چین کی آمد اور بھارت سے نجات کی گفتگو شروع کرچکے ہیں۔ بھارت نے سوئے ہوئے چینی شیر کو جگا کر پیر نہیں اپنے سر پر کلہاڑی مارلی ہے اور اب ہر گزرتا دن ’اکھنڈ بھارت‘ کے وجود سے لہو نچوڑ رہا ہے اور اس کی موت کو سانس در سانس کم کرتا چلاجارہا ہے۔
بھارتی کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہریندر سنگھ اور چینی فوج کی جانب سے لداخ میں کمانڈر میجر جنرل لیو لین کے درمیان مولڈو چوشل کے مقام پر پھر بات چیت ہوئی ہے لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ مودی روس کے منت ترلے میں مصروف ہے اور بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے روس کے آمدہ دورے کے دوران مزیدمنت سماجت متوقع ہے۔ روس، چین اور بھارت کے وزراء خارجہ کی ملاقات اور آنے والے دنوں میں روسی ثالثی کی باتیں جاری ہیں۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی چینی گرفت سے گلو خلاصی روس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ روس اور بھارت کے ماضی میں مثالی تعلقات رہے ہیں۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے زمانے میں دونوں میں گاڑھی چھن رہی تھی پھر حالات نے پانسہ بدلا تو دوست دشمنوں کی تقسیم اور تفریق نئے سرے سے ہوئی۔ ہماری تاریخ میں جاری طعنہ بازی بھی نئے معنی پاگئی۔ پاکستان اور روس قریب آگئے اور گویا خطے میں چین، روس اور پاکستان کی صورت ایک نئی تکون نمودار ہوئی۔
وادی گلوان، پینگانگ اور دریائے شیوک کے کنارے دیگر علاقہ جات میں نئی چین بھارت کشیدگی نے پورے خطے اور عالمی سیاست و توازن پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں رہنے والوں کی سوچ، انداز اور لب ولہجہ بدل گیا ہے۔ خطے میں بھارت کے باجگزار اور باندی وغلام سمجھے جانے والے ممالک کے بھی پَر پْرزے نکل آئے ہیں۔
بھارت سمیت تمام عسکری تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا اتفاق ہے کہ مودی اور بھارت اپنی قوم کو بے وقوف تو بناسکتا ہے، جذباتی بناکر اپنا سیاسی الو سیدھا کرسکتا ہے لیکن چین کے ساتھ جنگ کی راہ اپنانا کسی لحاظ سے ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بھارت کے خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت اور چین کے دستوں کے درمیان جو دست بدست لڑائی ہوئی تو گولی کیوں نہیں چلی۔ ماہرین کا بتانا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ یا دونوں ممالک کی سرحد تقسم کرنے والی حقیقی لکیر کے دو کلومیٹر کے علاقے میں آتشین ہتھیار استعمال نہ کرنے کا غیررسمی اور غیر تحریری معاہدہ ہے جس کی وجہ سے گولی نہیں چلی اور بات ہاتھا پائی تک محدود رہی۔
بتایاجاتا ہے کہ چینی فوج کنگفو اور کراٹے کے بلیک بیلٹ ماہرین اور کمانڈوز کے دستے لائی اور انہوں نے بھارتی فوجیوں کو ’’نانی یادکرادی۔‘‘ امریکی ہالی ووڈ اور بھارتی بالی ووڈ میں بنائی جانے والی فلموں سے جو تاثر امریکہ اور بھارت نے بنارکھا تھا وہ چین اور افغانستان میں دورہوچکا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ فلمی پردے کے ہیروز اور مرد میدان کیا ہوتے ہیں۔ ارطغرل ڈرامے نشر کرنے اور میدان میں دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے میں کتنا فرق ہے۔ ان چینیوں کے بارے میں یہ بات بھی زبان زدعام ہے کہ وہ آہنی ڈنڈوں سے لیس تھے جن کے سِرے پر فولادی کیل پیوست تھے۔ انہیں کند آلے کے طورپر استعال کیا گیا۔ انہوں نے مار مار کر بھارتی فوجیوں کو ’لَم لیٹ‘ کردیا۔
اب یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ بھارت نے چین کے ساتھ گولی نہ چلانے کا معاہدہ توڑ نے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارتی فوجیوں کو چینی فوجیوں پر فائرنگ کی اجازت دے دی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ 1996 اور 2005 کے معاہدے کے نتیجے میں چین اور بھارت کے درمیان دو کلومیٹرسرحدی علاقے میں فائرنگ نہ کرنے کا معاملہ طے پایاتھا۔ بھارت نے فیلڈ کمانڈرز کو فائرنگ کی اجازت دے دی ہے۔ جس کا واضح مطلب بھارتی فوج کا تباہی کی راہ پر چلنا ہے۔ دنیا نے یہ دلچسپ منظر بھی دیکھ لیا کہ دنیا کی جوہری قوت اور بڑے ممالک کی افواج باہم دست وگریبان تھیں اور گھونسوں، لاتوں سے لڑیں۔ایک نہایت اہم سٹرٹیجک پیشرفت یہ ہورہی ہے کہ خطے کے ممالک نے پہلی بار آزادی کا سانس لینا شروع کیا ہے۔ اپنے ملک میں سڑک، پْل اور کوئی تعمیر بھی بھارت سے پوچھ کر کرنے والے ممالک کا رویہ تبدیل ہوتا محسوس کیاجارہا ہے۔ چین کی پیش رفت نے بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور میانمار کی بھی سانسیں بحال کردی ہیں۔ (جاری)
مودی کی رسوائی اور جنوبی ایشیا کا بدلتا منظر نامہ
Jun 24, 2020