پہلے تو مجھے ایک شعر یاد آ رہا ہے
یوں قتل کیے بچوں کہ وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
فرعون کا تعلق مصر سے تھا۔ یہ شعر اکبر الہ آبادی کا ہے ایسٹ ا نڈیا کمپنی کے دور میں شاعری کرتے تھے۔ مجھے اس شعر کی تشریح مقصود نہیں لیکن یہ شعر بہر حال اپنی زبان سے ہمیں بھی کچھ کہہ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کو چار ماہ ہونے کو آرہے ہیں۔ کچھ نجی تعلیمی اداروںنے عدلیہ سے رجوع کیا کہ انہیں ادارے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے کہا کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے، ملک میں کہیں کہیں نعرے بازی بھی کی گئی کہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے طالب علموں کو نقصان پہنچ رہا ہے یا ان کے والدین متاثر ہو رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اداروں کے مالکان کو کیا نقصان ہواہے۔ وہ تو باقاعدہ فیسیں لے رہے ہیں۔ بیس فی صد انہیں کم مل رہا ہے مگر کیلکولیٹر پر حساب لگا یا جائے کہ اداروں کو بچت کیا ہو رہی ہے۔ پورے اسکول کالج یونیورسٹی میں بجلی کے بل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ا داروں کی بسیں بندپڑی ہیں اور ان کے ڈیزل کی بچت کا اندازہ بھی لگایاجا سکتا ہے۔ نہ وہ طالب علموں کو لا رہے ہیں نہ واپس چھوڑ رہے ہیں،بیشتر سینئر سٹاف کو بھی لانے لے جانے کا سلسلہ بند ہے، یہ خرچ بھی کم ہوا۔ صرف اساتذہ کو تنخواہ دینا پڑ رہی ہے اور اللہ جانے کونسا ادارہ باقاعدگی سے تنخواہیں دے رہا ہے اور کونسا نہیں۔ ان تنخواہوں کے لئے فیس وصولی کی آمدنی بھی وافر ہے۔ اگر کوئی ادارے اس حساب کتاب کو چیلنج کریں تو میری گزارش ہو گی کہ حکومت سے کہ وہ ان اداروں کے بنک بیلنس کو سامنے لے آئے۔ پتہ یہ چلے گا کہ ان اداروں کو جو نقصان ہو رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انہیں وہ منافع نہیں مل رہا جس سے ان کی تجوریاں بھرتی رہیں۔
نجی تعلیمی اداروں کی کوتاہی یہ ہے کہ وہ دنیا کے تعلیمی نظام میں ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کا ساتھ نہ دے سکے۔ دنیا ایک عرصہ سے تعلیم کا بڑا حصہ آن لائن کر چکی ہے۔ بائیس برس پہلے لندن ا سکول آف اکنامکس کے ایک پاکستانی طالب علم کو میں روز دیکھتا تھا کہ وہ کسی بھی لمحے اپنے ادارے سے دور نہیں ہوا۔ چھٹیوں کے کام کی نگرانی پوری کی پوری آن لائن کی جا رہی تھی۔ تمام تر لیکچر انٹر نیٹ پر موجود تھے ا ور طالب علموں کو راہنمائی کے لئے پورا مواد میسر تھا۔
ہمارے نجی تعلیمی اداروں کو اگر علم کے فروغ سے ذرہ بھر دلچسپی ہوتی تو وہ اپنے آپ کو آن لائن کر چکے ہوتے تاکہ طالب علموں کو کیمپس جانے کا موقع ملے یا نہ ملے ۔ وہ تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ یہ کرنے کا کام تھا جو نہیں کیا گیا مگر کرونا کی وبا میں انہیں خدشہ سے کہ وہ طالب علموں سے بلا کچھ ڈیلور کئے فیسیں نہیں لے سکتے۔ اس لئے ان کی کوشش ہے کہ تعلیمی ا دارے کھل جائیں۔ انہیںا س بات کی کوئی پروا نہیں کہ فیس تو انہیں مل جائے گی مگر کرونا کی وجہ سے نئی نسل کا جو حشر ہو گا وہ مصر کے فرعون کے ہاتھوںبچوں کو پہنچے والے نقصانات سے بڑا ہو گا۔ والدین کا تو خیال ہے کہ حکومت تعلیمی ادارے کھول بھی دے تو وہ اپنے بچوں کی جانیں بچانے کو ترجیح دیں گے اور تعلیمی نقصان برداشت کر لیں گے۔ والدین جانتے ہیں کہ ہمارے اسکولوں اور کالجوںاور یونیورسٹیوں کے ایک ایک کمرے میں بچوں کو بھیڑبکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔ ایک کمرے میں ساٹھ ستر طالب علم ۔ دیر سے آنے والے کو جگہ تک نہیں ملتی۔میں ایک زمانے میں لیکچرر مقرر ہوا تو کالج میں ڈیڑھ سو بچے میری کلاس میں تھے۔ میں شش و پنج میں پڑ جاتا کہ ان کی حاضری لگائوں یا انہیں لیکچر دوں ۔حاضری لگانے کی کوشش کرتا تو باہر برا ٓمدے میںکھڑے بچے کھڑکی کے اندر منہ کرکے یس سر کہہ دیتے۔ اس کے مقابلے میں میں بانوے میں امریکہ کے مطالعاتی دورے پر گیا تو امریکی صدر ہر برٹ ہوور کے آبائی گائوں کے ایک اسکول کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک کمرے میں صرف دس بچے ، صاف ستھرے۔ مکمل نظم و نسق کا ماحول۔ہمارے ہاں ا س معیار کا کوئی اسکول دیکھنے کو نہیں ملے گا یہ سب تعلیم کی آڑھتیں ہیں۔
کرونا جس طرح جانیں لے رہا ہے اس کے پیش نظر حکومت لاک ڈائون کو سخت کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ہمارے لوگ احتیاطی تدابیر ملحوظ نہیں رکھتے۔ تو بچوںسے کس احتیاط کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔خدا کے لئے اپنے مستقبل کی نسل کو تو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ویسے حیرت ہے کہ سائنس کی برکت سے طویل عمر پانے کا خواب پورا ہو رہا تھا۔جاپان ، چین سنگا پور اور مشرق بعید کے ملکوں میں نوے سے ا وپر تک اوسط عمر پہنچ گئی ہے۔ تو ہم اس قدر شقی القلب کیوں ہو جائیں کہ اپنے پھولوں کو مسل ڈالیں ۔کیوںنہ ہمارے تمام تعلیمی ادارے کرونا کے پیش نظر آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کریں تاکہ ہمارا مستقبل محفوظ بھی ہو اور تابناک بھی ۔
٭…٭…٭