ختم نبوتؐ پر ایمان! پنجاب اور سندھ اسمبلی کے بعد قومی اسمبلی میں بھی قرارداد کی متفقہ منظوری
پنجاب اور سندھ اسمبلی کے بعد قومی اسمبلی نے بھی گزشتہ روز ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرکے درسی کتب اور تعلیمی اداروں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ مقدس کے ساتھ خاتم النبینؐ لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا لازمی قرار دے دیا۔ یہ قرارداد مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی کی تجویز پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اتفاق رائے سے پیش کی جس کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے حمایت کی۔ قرارداد میں اس امر کا تقاضا کیا گیا کہ تمام درسی کتب اور تعلیمی اداروں میں جہاں جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتا ہے اسکے ساتھ لفظ خاتم النبینؐ لازماً لکھا‘ پڑھا اور بولا جائے۔ ایوان نے اس قرارداد کی متفقہ منظوری دی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے امجد نیازی نے کہا کہ حضرت نبی ٔپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں واضح کردیا تھا کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا اور وہ آخری نبی ہیں۔
یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہر مسلمان حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنے کے جذبے سے سرشار ہے اور ختم نبوت پر ایمان مسلمانوں کے عقیدے میں شامل ہے۔ خدائے واحدولاشریک نے اپنی کتاب ہدایت قرآن مجید کے 22ویں پارہ کی سورۃ الاحزاب ‘ آیت نمبر 40 میں واضح طور پر یہ ارشاد فرما کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مہر ختم نبوت ثبت فرمائی کہ ’’ماکان محمدًا اٰباء احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین‘‘ (محمد تم میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں)
کتاب ہدایت کی اس واضح آیت مبارکہ کی روشنی میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں اور اسی بنیاد پر ختم نبوت پر ایمان بھی اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے۔ دین اسلام کیخلاف صف آراء الحادی قوتیں اتحاد امت توڑنے اور مسلم امہ میں انتشار پیدا کرنے کیلئے اپنی مکروہ سازشوں کے تانے بانے بننے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں اور فتنۂ قادیانیت بھی ایسی ہی سازشوں کا شاخسانہ ہے جس کے تحت ملعون مرزا غلام احمد قادیانی نے خود کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پرتو قرار دینے کا ڈھونگ رچایا اور وہ بہ شکلِ محمدؐ (نعوذباللہ) آخری نبی ہونے کا جھوٹا دعوے دار بنا جسے اس وقت کے جید علماء کرام نے آڑے ہاتھوں لیا اور پیرطریقت سید جماعت علی شاہ نے اس ملعون کو مناظرے کا چیلنج دیا مگر وہ مقررہ وقت پر راہ فرار اختیار کرگیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اتحاد عالم اسلام کے درپے الحادی قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت فتنۂ قادیانیت خود کھڑا کیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد مملکت خداداد میں اس فتنے نے تیزی سے سر اٹھایا جس کی سرکوبی کیلئے جید علمائے کرام کی قیادت میں اسلامیان پاکستان نے ملک بھر میں تحریک ختم نبوتؐ چلائی اور اپنی جانوں تک کی قربانیاں پیش کیں۔ اسی تناظر میں فتنۂ قادیانیت کے سدباب کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی میں طویل بحث مباحثہ کے بعد اور اس وقت کے قادیانی تنظیم کے سربراہ مرزا طاہر احمد کا اسمبلی کے فورم پر موقف سن کر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس کی بنیاد پر آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم کرکے اس میں شق 3 شامل کی گئی جس کے تحت قادیانیوں پر خود کو مسلمان ظاہر کرنے‘ اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دینے اور مسلمانوں کی مخصوص عبادات کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تاہم ملعون مرزا قادیانی کے پیروکاروں نے آج تک اس آئینی ترمیم کو قبول نہیں کیا اور وہ خود کو بدستور مسلمان ظاہر کرکے فتنۂ قادیانیت کو فروغ دے رہے ہیں جنہیں دین اسلام کو انتشار کا شکار کرنے کی سازشوں میں مصروف الحادی قوتوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
بدقسمتی سے ملک کے اندر بھی بعض طبقات و عناصر کی جانب سے مجہول قادیانیوں کو حمایت حاصل ہوتی رہتی ہے جن کی منتخب ایوانوں اور اقتدار کی راہداریوں تک میں رسائی ہوتی ہے۔ فتنۂ قادیانیت کی حوصلہ افزائی کرنیوالے ایسے بدبخت عناصر ہی کبھی درسی کتب میں شعائر اسلامی کو خارج کرانے‘ حضرت نبی ٔآخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب خاتم النبینؐ میں ترمیم و تحریف کرانے اور کبھی منتخب ایوانوں میں آئین و قانون کی متعلقہ دفعات میں تبدیلی کرانے کی مکروہ سازشوں میں مصروف رہتے ہیں مگر فوری اور سخت قومی ردعمل پر انہیں ہر بار اور ہر سازش میں منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک سازش کے تحت میاں نوازشریف کے اقتدار کے آخری دنوں میں قومی اسمبلی میں یکایک ایک آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری حاصل کی گئی جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ بشمول وزیراعظم‘ وزراء کے حلف کی وہ عبارت تبدیل کردی گئی جس کے تحت حلف اٹھاتے وقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبینؐ ہونے کا حلفاً اقرار کیا جاتا ہے۔ اس پر حکومت کو سخت قومی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایوان میں متذکرہ آئینی ترمیم واپس لینے اور حلف کی عبارت من و عن بحال کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ایسی ہی ایک سازش موجودہ اسمبلی میں بھی گزشتہ اپریل میں ایک مسودۂ قانون لا کر کی گئی جس کے تحت قادیانیوں کو ان سے غیرمسلم اقلیت کا اقرار کرائے بغیر قومی اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دے دی گئی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ خود قادیانیوں نے بھی قومی اقلیتی کمیشن میں اپنی نمائندگی قبول نہ کی کیونکہ اس سے انکے غیرمسلم اقلیت ہونے پر مہرتصدیق ثبت ہوتی تھی جبکہ اس مجوزہ قانون پر حکومت کو اپنی کابینہ کے ارکان کے علاوہ اپنے اتحادیوں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا نتیجتاً حکومت کو قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اب قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے درسی کتب اور تعلیمی اداروں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ خاتم النبینؐ لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا لازمی قرار دیکر فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کا مؤثر اقدام اٹھایا گیا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی یقیناً حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) کو جاتا ہے کہ اسکی ابتداء سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کراکے کی جس کے بعد سندھ اسمبلی نے بھی اس حوالے سے قرارداد کی متفقہ منظوری دی اور اب قومی اسمبلی میں منکرین ختم نبوتؐ کی سرکوبی کا مؤثر اہتمام کیا گیا ہے جس پر حکومت‘ اسکے اتحادیوں اور اپوزیشن سمیت پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔