وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم

Jun 24, 2021

انصاف اور میانہ روی زندگی گزارنے کے بہترین اصول ہیں اسلام بھی اس چیز کی گواہی دیتاہے،آئے روز معاشی تصادم ہمارے معاشرے کو ہلاکے رکھ دیتاہے،اسی تصادم اور غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہمارے ملک میں جرائم میں اضافہ ہورہاہے ہماری نوجوان نسل اور 12سے16سال کے بچے زندگی کی ناانصافیوںسے خوفزدہ ہوکر اپنا مستقبل تباہ کررہے ہیں۔غریب گھرانوں کی خواتین گھروںمیں کام کرنے کے علاوہ جب سڑکوں پر بھیک مانگتی ہوئی ہمیں نظرآتی ہیں تو ان کے چہرے پر غمزدہ زندگی کی کہانی صاف پڑھی جاسکتی ہے۔ہمارا مزدور طبقہ جب صبح سویرے سڑکوں پر بیٹھ کر مالکوں کا انتظارکرتاہے جوانہیں اپنے گھروںمیں کام کیلئے لے جاتے ہیں تو ان کی آنکھوں کی حسرت اور آرزو اس وقت چیخ اٹھتی ہے جب شام تک انہیں کوئی نہیں لے جاتا اور اپنا بیلچہ،برش اٹھاکر تھکے اور مایوس قدموں سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں 20% آبادی ایسی ہے جن کے پاس 80% دولت ہے اور 80% آبادی ایسی ہے جن کے پاس20% دولت ہے۔ دولت کی اس غیر مساوی تقسیم نے ہمارے معاشرے میں مسائل بھی تقسیم کر دیئے ہیں۔ ان مسائل کی تقسیم بھی دولت کی تقسیم کے مساوی ہے۔ہر انسان اپنی سی کوشش کرکے معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کی تگ و دو کرتا ہے۔ اپنے بچوں کیلئے اچھی تربیت گاہیں تلاش کرتا ،اپنے اسلاف کی روایات ان تک پہنچاتا ہے اور انہیں معاشرے کا ایک باعزت شہری بنانے کی جستجو میں رہتا ہے مگر یہ طبقاتی نظام اسے کہیں نہ کہیں اٹھا کر کسی گڑھے میں پھینک دیتا ہے یا مفلسی کی زمین پہ پٹخ دیتا ہے۔کسی ایک کمیونٹی کو ہی دیکھ لیں جہاں پر فلیٹس میں ایک ایک خاندن اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں،کوٹھیاں بھی ہیں جہاں پر پورچ میں تین تین گاڑیاں اور ایک ایک چوکیدار کھڑا ہے اور اس کوٹھی میں صرف ایک خاندان رہتا ہے مگر ایک غریب عورت اور مرد یا چھوٹی عمر کی بچی اور بچہ ان کی خدمت کیلئے مامور ہوتے ہیں۔ اسی کمیونٹی میں دو کمروں کے مکان میں دو خاندان گزر بسر کرتے ہیں جہاں ایک چارپائی پر چار بچے اور فرش پر چٹائی بچھا کر ماں باپ سونے کیلئے جگہ بناتے ہیں اور اس سے ذرا نیچے آئیں تو ایک جھگیوں میں بسنے والا طبقہ ہے جو اس کمیونٹی میں ہونے والی تعمیرات میں مزدوری کا کام کرتے ہیں اور انکے چھ سال کے بچے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتے اورشام ہونے تک ماں باپ اور روٹی کا انتظار کرتے ہیں۔ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والِہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو فرمایا کہ تم سب برابر ہو آج عربی کو عجمی پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اور اگر کسی کو فوقیت حاصل ہے تو وہ ہے اس کا تقویٰ،ان کا کردار اور اعمال۔ مگر آج کیا ہو رہا ہے جب ایک گھر سے تین تین کاریں نکلتی ہیں تو کچی اینٹوں کے مکان میں بسنے والے شہری کھڑکیاں کھول کھول کے ان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔گلے میں بستے ڈال کر غریبوں کے بچے جب کسی گورنمنٹ سکول کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو انکی نگاہیں ان بڑی گاڑیوں کے دروازوں پر لگی ہوتی ہیں جہاں سے ان جیسے بچے کھلکھلاتے ہوئے شاندار بستے، ٹفن بکس اور پانی کی قیمتی بوتل ہاتھ یں پکڑ کر اترتے ہیں اور گاڑی کا ڈرائیور یا گن مین انہیںسکول کے گیٹ تک چھوڑ کے آتا ہے۔ اب مڈل کلاس یا لوئر کلاس کے خاندانوں میں پلنے بڑھنے والے بچوں کو کیسے سمجھایا جائے۔ انکے سوال صحیح ہوتے ہیں مگر جواب نہیں ہوتا۔امیر طبقہ معاشرے کی سب سے بہترین سہولت سے مزین زندگی گزارتا ہے۔ ہسپتال،تعلیم،سفری سہولت، بہترین سے بہترین انکے اختیار میں ہوتی ہے۔ درمیانے طبقے کے لوگ ہونے یا نہ ہونے کے گرداب میں پھنسے رہتے ہیں دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا آپ تھپڑ مارکر لال کرنے کی کوشش میں تماشا بھی بن جاتے ہیں۔امراء کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے بل بوتے پر اپنے جسم کا کینسر زدہ خون بھی بدلوا لیتے ہیں مگر درمیانے طبقے کے لوگ کینسرکے علاج کیلئے گھر بھی گروی رکھوا کر زندگی نہیں خرید سکتے۔ مگر کیا یہ طبقاتی نظام کسی کو ورثے میں ملتا ہے یا معاشرے کی پیداوار گردانا جاتا ہے۔ اس کیلئے اگر حکومت اپنی حکمت عملی پر غور کرے ہر طرف سکول نصاب ہسپتال اور روزگار کا ایک معیار بنا دیا جائے تو ہمارے معاشرے کا بگاڑ بہت حد تک ختم ہو جائیگا۔ اسی مساوی تقسیم کیلئے افواجِ پاکستان کی حکمتِ عملی بہت بہترین ہے۔آرمی پبلک سکولز میں بچے ایک ہی نصاب پڑھتے ہیں۔ سی ایم ایچ میں سب کا ایک جیسا علاج سارے ڈاکٹرز اور سہولیات کا حصول ایک بے مثل سچائی ہے۔ اس طبقاتی تقسیم سے نکلنے کیلئے حکومت کی پالیسیاں دوبارہ سے زیرِ غور لائی جائیں اور معاشرے میں ہر فرد بچے بوڑھے عورت اور طبقوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے اعلان کر دیا جائے کہ آج کے بعد مزدور کے بچے اور امیر کے بچے کے علاج، تعلیم، اور روزگار کیلئے بس ایک ہی راستہ ہے ،ایک ہی اصول ہے، ایک ہی نظام ہے۔

مزیدخبریں