ہراسگی کیس: وزیراعظم کا سخت ایکشن، کارروائی نہ کرنے والوں کی معطلی کا حکم
وزیراعظم کی طرف سے سٹیزن پورٹل کے قیام کا مقصد ہی یہی ہے کہ عوام ان سے براہ راست ٹیلی فونک رابطہ کرکے اپنے لاینحل مسائل سے آگاہ کریں تاکہ یہ مسائل حل ہوں۔ یہ ایک نہایت مثبت اقدام ہے۔ اس سے مسائل کا شکار عوام کو اپنے مسائل کے حل کی ڈھارس بندھی۔ اب ایک خاتون نے سٹیزن پورٹل کے ذریعے وزیراعظم کو ہراسگی سے متعلق فریاد کی تو وزیراعظم نے اس کی درخواست پر نوٹس لے کر کارروائی کا حکم دیا مگر آفرین ہے ہمارے سرکاری افسران پر جو وہ کسی کے حکم کو خاطر میں لاتے ہوں۔ یہاں اس کیس میں بھی وہی روایتی بھیڑ چال رہی۔ اس خاتون نے ہراسگی کی وجہ سے ملازمت چھوڑ دی۔ خودکشی تک کی کوشش کی۔ ایف آئی اے میں درخواست تک دی مگر کچھ نہ ہوا۔ وزیراعظم نے دادرسی کی یقین دہانی کرائی مگر پھر بھی بات نہ بنی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ متاثرہ خاتون نے وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل میں 5 مرتبہ شکایت درج کرائی اب وزیراعظم نے ڈی جی کو حکم دیا ہے کہ کوتاہی میں ملوث ایف آئی اے کے افسران کو معطل کیا جائے اور فوری طور پر خاتون کی دادرسی کی جائے۔ امید ہے اب خاتون کو انصاف مل کر رہے گا۔ اس طرح عوام میں اعتماد بڑھے گا اور سٹیزن پورٹل پر راندۂ درگاہ قسم کے لوگ بھی انصاف حاصل کرنے کیلئے دستک دیں گے۔ یہ ایک اچھا سلسلہ ہے اس کو جاری رہنا چاہئے تاکہ بے نوائوں کو بھی فوری انصاف مل سکے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب کابینہ کیلئے 46 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ
وفاقی حکومت کی کفایت شعاری کی مہم گئی کھوہ کھاتے۔ کہاں حکومت پنجاب کی سادگی کے دعوے کہاں یہ خرچے۔ اب کون سادگی اور کفایت شعاری مہم کے نام پر اپنی عیاشی اور ٹھاٹ باٹھ کو زیادہ دیر تیاگ سکتا ہے۔ وزارت میں اگر ٹھاٹ باٹھ نہ ہوتو کس کام کی یہ وزارت۔ ہمارے تو عام نودولتیئے عالیشان گاڑی اور گن مینوں کی فوج ظفر موج رکھ کر مونچھوں پر تائو دیتے نظر آتے ہیں۔ کلین شیو اس سے مبرا ہیں وہ متکبرانہ سلوٹیں ماتھے پر ڈال کر اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ اب حکومت پنجاب نے بیش قیمت 46 گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں سے ہر گاڑی کی قیمت 48 لاکھ روپے ہے۔ اب عوام ازخود ضرب جمع تقسیم کرکے دیکھیں کہ رقم ایک ارب سے اوپر جاتی ہے یا نہیں۔ یہ گاڑیاں ان وزیروں، مشیروں کیلئے ہیں جن کی 3 سالہ کارکردگی اگر دیکھیں تو صفر جمع صفر مساوی صفر ہی نظر آتی ہے ۔ شاید اسی لئے کچھ نہ کرنے کے عوض انہیں نئی گاڑیاں تحفے میں پیش کی جارہی ہیں۔ ان گاڑیوں کی قیمت ظاہر ہے انہوں نے خود تو نہیں دینی یہ رقم بھی عوام کی جیبوں سے ہی نکالی جاتی ہے۔ جنہیں 48 لاکھ تو کجا 48 سو روپے کا فائدہ پہنچانے کے یہ وزیر اور حکومت روادار نہیں۔ خاموش سرتسلیم خم کئے عوام کو یہ خوشخبری مبارک ہو۔ امید ہے وہ یہ بھی خاموشی سے ہضم کرلیں گے اف تک نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭
امریکی ٹی وی کی بے ایمانی،وزیراعظم کے انٹرویو سے بھارت والا حصہ نکال دیا
یہ امریکی میڈیا کی چالاکی کہہ لیں یا بددیانتی کہ انہوں نے امریکی حکومت کی بھارت نواز پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو نشر کرتے وقت اس میں سے بھارت کے حوالے سے ان کا انٹرویو کا حصہ کاٹ دیا۔ اب اس پر حکومت پاکستان نے امریکی ٹی وی سے وضاحت طلب کی ہے کہ اس نے یہ بددیانتی کیوں کی۔کجا ایک طرف امریکی میڈیا اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بڑے بڑے پروگرام کرتا ہے۔ بلندوبانگ دعوے کرتا ہے مگر جب اپنی باری آتی ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور وہی تیسری دنیا کی آمرانہ حکومتوں والے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ بھارت کی بدترین مسلم دشمن انسانیت دشمن پالیسیوں پر دنیا بھر میں تھو تھو ہورہی ہے۔ اس حوالے سے اکثر خبریں عالمی میڈیا کی زینت بھی بنتی ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نے اگر اپنے انٹرویو میں بھارت کی بے ایمانی ، بددیانتی اور عالمی امن کیخلاف سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کچھ کہہ دیا تو کو ن سی قیامت آگئی۔ سچ تو سچ ہوتا ہے کڑوا ہی سہی۔اسے سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ سب میں ہونا چاہئے مگر افسوس اس معاملے میں امریکی میڈیا نہایت کم ظرف نکلا اور حق کی بات چھپا کر اپنے چہرے پر منافقت اوردوغلی پالیسی کی کالک مل دی۔ اب دیکھتے ہیں وہ اس بارے میں کون سی کہانی سناتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب کی طرح سندھ کو بھی بڑے منصوبے دیں: مراد علی شاہ
حیرت ہوتی ہے جب ایک ملکی سطح کی بڑی سیاسی شخصیت جو ایک اہم عہد ے پر فائز ہو ایسی متعصبانہ باتیں کرتی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں تفرقہ ڈالنے والی بات کئے بغیر کیا ہمارے صوبائی سیاستدانوں کی روٹی ہضم نہیں ہوتی یا انہیں رات کو نیند نہیں آتی۔ وفاق سے فنڈز اور پانی کے مسئلے پر سندھ کے متعصب ذہن رکھنے والے سیاستدان جی کھول کر پنجاب کیخلاف اناپ شناپ بولتے رہتے ہیں۔ کوئی بانگ دیتا ہے کہ سندھ کے حصے کا پانی پنجاب چوری کررہا ہے۔ کوئی ہانکتا ہے کہ ہمارے حصے کے فنڈز پنجاب کھا رہا ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ سندھ، کو فنڈز بھی پورے مل رہے ہیں۔ پانی بھی اس کے حصے سے زیادہ دیا جارہا ہے جو پنجاب اپنے حصے سے کاٹ کر دے رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر سندھ والے خوش نہیں وہاں کے وزیراعلیٰ بھی ایسے بیان دیں گے کہ پنجاب کی طرح ہمیں بھی بڑے منصوبے دیں تو اس کا عوام پر کیا اثر ہوگا۔ سندھ کو پہلے جو پراجیکٹ اور منصوبے ملے ہیں وزیراعلیٰ سندھ ذرا اس کا بھی حساب کتاب کھولیں۔ ان منصوبوں کیلئے جاری بھاری رقم کہاں گئی کتنے فیصد منصوبوں پر کام ہوا تو ان کی بات میں وزن پیدا ہوسکتا ہے ورنہ سندھ میں کسی بھی منصوبے پر نہ پہلے کوئی کام ہوا نہ آئندہ برق رفتاری سے ہونے کی امید نظر آتی ہے۔ سندھ کی حالت دیکھ کر لوگ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کہاں کیا ہورہا ہے اور فنڈز کہاں جارہے ہیں۔ سندھ کی حکومت کیا کررہی ہے۔