سیاسی ڈائری۔۔۔۔’’قومی افق‘‘
عبدالستار چودھری
اسلام آباد
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں ایک انتہائی اہم قدم اٹھایا ہے ، وہ اقدام ملک و قوم کے لئے کس قدر مثبت ثمرات کا حامل ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے شدید ترین سیاسی مخالف مولانا فضل الرحمان نے بھی وزیراعظم عمران خان کے اس موقف کی بالواستہ حمایت کر دی ہے۔ گزشتہ دنوں غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے دو ٹوک انداز میں امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان، امریکہ اور سی آئی اے کو افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے لئے اپنی سر زمین اور فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا، وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کی جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان کا نقصان ہوا ہے اور ہمارے 70 ہزار افراد شہید ہوئے ہیں ہم اس جنگ کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے، ہم امن میں شراکت دار ہوں گے لیکن تنازعات میں نہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں کارروائیوں کے لیے امریکی ایئر فورس کو اپنی فضائی حدود بھی استعمال نہیں کرنے دیں گے ، آخرجب 20 سال تک کوئی فائدہ نہ ہوا تو اب امریکا کیوں افغانستان پر بمباری کرے گا، اس کا اب کیا فائدہ ہوگا؟۔
وزیراعظم کے اس بیان پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار اپوزیشن جماعتوں کے دبائو پر کیا ہے، پاکستانی حکومت کی جانب سے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار وزیراعظم عمران خان کا ذاتی فیصلہ ہے یا اپوزیشن جماعتوں کے دبائو نے کام دکھایا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کی اپنی باتوں میں ان کے دعوے کی تردید موجود ہے، عید کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پیپلزپارٹی اتحاد میں معافی مانگے بغیر واپس نہیں آ سکتی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو بجٹ سیشن میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور بجٹ منظور نہ کروانے کی حکمت عملی تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے طے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس وقت یہ دعوی بھی کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی بھی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ’’آن بورڈ‘‘ ہو گی لیکن دو روز بعد ہی اسلام آباد میں ن لیگ کے زیراہتمام پری بجٹ سیمینار منعقد کیا گیا اور کسی بھی اپوزیشن جماعت کو دعوت نہیں دی گئی، جس کے بعد سیاسی حلقوں میں پی ڈی ایم کے غیر فعال ہونے کی چہ مگوئیاں بھی ہونے لگیں، حکومتی وزراء بھی ہر اجلاس اور پریس کانفرنس میں یہ دعوی کرتے تھے کہ پی ڈی ایم کی ’’تدفین‘‘ کی جا چکی ہے۔ ہفتہ کے روز قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے معاملے کو اصلاح احوال کے نام پر مزید متنازعہ بنانے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کر دیا جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کی گاڑی کا ’’تیل پانی‘‘ چیک کرنا شروع کر دیا ہے جس کا واضح طور پر یہ مطلب ہے کہ اس وقت جب ملک کو بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے سیاسی استحکام اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ امریکہ ایک عرصے سے پاکستان پرہمارے بعض برادر ممالک کی معاونت سے دبائو بڑھا رہا ہے کہ خطے میں گیم چینجر سی پیک منصوبوں کی رفتار کم کی جائے اور آہستہ آہستہ یہ پروگرام خدانخواستہ رول بیک کیا جائے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ انتہائی سٹیٹ فارورڈ وزیراعظم عمران خان نے Absolutely Not کہہ کر ناقدین کے بھی منہ بند کر دیئے ہیں اور امریکہ کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ وہ خطے میں اپنی مرضی کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے پاکستانی مفادات کو بھی مدنظر رکھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت امریکہ کو دوٹوک جواب دے چکی ہے اور اس ’’انکار‘‘ کو سہنے کی سکت اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ جب تک ادارے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس انتہائی اہم خارجی معاملے پر حکومت کے اس موقف کی حمایت نہیں کی جاتی، حکومت کے موقف میں وہ طاقت نہیں آ سکے گی۔ بالفرض اگر وزیراعظم نے اپوزیشن جماعتوں کے دبائو کے نتیجے میں ہی امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا ہے پھر اس انکار کے بعد کی صورتحال پراپوزیشن جماعتوں کا حکومت کیلئے مؤقف بھی واضح ہونا چاہیئے۔
مسلم لیگ (ن) کے ’’مزاحمتی‘‘ دھڑے کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کی آراء سامنے آئی ہیں کہ عمران خان یوٹرن کے ماہر ہیں ، جلد ہی فیصلہ بدل دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کو عمران خان پاکستان کے مفاد میں اٹھائے گئے اس دوٹوک اقدام سے کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی۔ اگر یہ مسئلہ براہ راست حکومتی بدانتظامی کے زمرے میں آتا ہو تو اپوزیشن کے پاس تنقید کا اخلاقی جواز موجود ہوتا لیکن خارجہ امور اور اس سے بھی آگے بڑھ کر امریکی مفادات کے مقابلے میں پاکستان کے لئے ڈٹ جانا ایک اہم کامیابی ہے اور اس کا کریڈیٹ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ ساتھ اداروں کو بھی جاتا ہے جن کی رہنمائی اور تعاون کے بغیر ایسے اہم فیصلے لئے ہی نہیں جا سکتے۔
وفاقی دارالحکومت میں رواں ہفتہ اس لحاظ سے بھی انتہائی اہم رہا کہ قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے بین تصادم کے نتیجے میں ایوان میں جو کچھ ہوا اور جس قسم کی زبان استعمال کی گئی اس کو ساری قوم نے دیکھا۔ یہ بہت افسوسناک تھا، اپوزیشن عام طور پر صورتحال کے مطابق تلخ کلامی اور تکرار پر آمادہ ہوتی ہے، حکومت کا کام ایسی ہر تنقید کو تحمل سے برداشت کرنا ہوتا ہے لیکن کپتان کے کچھ کھلاڑیوں نے ذہن بنا رکھا ہے کہ اپوزیشن چونکہ عمران خان کو ایوان میں بولنے نہیں دیتی اس لئے ہم اپوزیشن کو بولنے نہیں دیں گے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے بھی اپوزیشن کے ساتھ اس تصادم کی کچھ نہ کچھ پیشگی تیاری ضرور تھی ،جو کچھ بھی ہوا اور جس قسم کی ایوان میں زبان استعمال کی گئی اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اگر حکومت کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تو اپوزیشن کو بھی وزیراعظم اور حکومتی ارکان پر ذاتی نوعیت کے حملوں سے گریز کرنا چاہیئے۔