عمران خان صاحب کی شخصیت اور سیاست کے بار ے میں میرے بھی بے تحاشہ تحفظات ہیں۔ اس حقیقت کو مگر نظرانداز نہیں کرسکتا کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔مسلم اُمہ میں واحد ایٹمی قوت کے حامل ملک کے وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھے شخص کی گفتگو کو دنیا بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔پاکستان کے مخصوص جغرافیائی حقائق کی وجہ سے خارجہ اور دفاع امور کی بابت ان کی جانب سے ادا ہوئے کلمات کا عالمی طاقتیں انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے میں مصروف رہتی ہیں۔
مختصر تمہید کے بعد یہ کہنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ حال ہی میں ایک امریکی صحافی کو کیمرے کے روبرو ون آن ون انٹرویو دیتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم نے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جو انہیں ہرگز نہیں کہنا چاہیے تھیں۔ مذکورہ انٹرویو کے دوران کہی باتوں میں میرے لئے فی الوقت اہم ترین عمرا ن خان صاحب کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بیان کردہ خیالات تھے۔ ان خیالا ت کو سنتے ہوئے ذہن میں فوری طورپر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اگر عالمی طاقتیں یکسوہوکر بھارت کو مسئلہ کشمیر کا پاکستان کے لئے قابل قبول حل فراہم کرنے کو رضا مند کرلیں تو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بابت عمران خان صاحب کے تازہ فرمودات کا حوالہ دیتے ہوئے ’’حب الوطنی‘‘ کے نام پر ماتم کنائی شروع کردی ہے۔’’تخت یا تختہ‘‘ والی سیاست میں ایسے ہی ہوتا ہے۔عمران خان صاحب پہلے وزیر اعظم نہیں جو ایسے الزامات کا نشانہ بن رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ان کے سیاسی مخالفین نے ’’سکیورٹی رسک‘‘ ٹھہرایا تھا۔نواز شریف ’’مودی کا یار‘‘ بتائے گئے تھے۔
محترمہ کو ’’سکیورٹی رسک‘‘ پکارتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی تھی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا حقیقی آغاز ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا تھا۔ بھارت اس کی وجہ سے بوکھلا گیا۔امریکہ نے یہ پروگرام روکنے کے لئے ہر نوع کا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔بالآخر 1977میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نوستاروں والی تحریک چلی تو اس کے عروج کے دوران اسلام آباد میں مقیم امریکی سفارت کار نہایت رعونت سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ’’پارٹی اِزاوور‘‘ یعنی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کہانی ختم ہوئی والی بڑھک لگاتے رہے۔بھٹو کی پھانسی کے باوجود ہم مگر ایٹمی پروگرام پر ڈٹے رہے۔
اپنے پہلے دور حکومت میں ’’سکیورٹی رسک‘‘ ٹھہرائی محترمہ بے نظیر بھٹو 1993میں جب دوبارہ برسراقتدار آئیں تو ہمارے لئے اہم ترین سوال ایٹمی ہتھیاروں کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانا تھا۔محترمہ نے اس ضمن میں تاریخی کردار ادا کیا۔ میں اس کردار کی تفصیلات سے بخوبی آگاہ ہوں۔انہیں بیان کرنے سے مگر دانستہ گریز کو ترجیح دوں گا۔
فروعات میں گم ہوجانے کے بجائے اس کالم کے ذریعے ویسے بھی بنیادی طورپر یہ اصرار کرنا مقصود ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ہمارے ایٹمی پروگرام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔پاکستان کو اس کی جانب درحقیقت بھارت نے دھکیلا تھا۔1971میں اس کی فوج نے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔بنگلہ دیش کے قیام کے تین برس بعد بھارت نے 1974میں ایٹمی دھماکہ کردیا۔مقصد اس دھماکے کا دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ وہ جنوبی ایشیاء کا ’’حتمی چودھری‘‘ ہے۔وہ فیصلہ کرے گا کہ اس کے پاکستان جیسے ہمسائے خارجہ امور کے حوالے سے کون سی راہ اختیار کریں۔بھارت کی چودھراہٹ والے خواب ہی ہماری پریشانی کا تاہم واحد سبب نہیں تھے۔برطانوی راج کے دوران جب اس خطے میں ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر مقامی اشرافیہ کو اقتدار میں حصہ دینے کی بات چلی تو سرسید احمد خان جیسے دور اندیش مسلمان رہ نما چوکنا ہوگئے۔ انہیں خطرہ لاحق ہوا کہ ’’بندوں کی گنتی‘‘ والی ’’جمہوریت‘‘ اس خطے میں بالآخر ہندواکثریت کے راج کی راہ ہموار کرے گی۔تقسیم بنگال کے خلاف ہوئے ہنگاموں نے مسلمانوں کو مزید پریشان کردیا۔ اسی باعث مسلم لیگ کا قیام مسلم اکثریتی مشرقی بنگال کے شہر ڈھاکہ میں ہوا تھا۔اس کے بعد ’’مسلم شناخت‘‘ کے حوالے سے دو قومی نظریہ کی ابتداء ہوئی۔بالآخر قائد اعظم کی شبانہ روز محنت کے صدقے ’’مسلم شناخت‘‘ کی فکر1947میں پاکستان کے قیام کا کلیدی سبب ہوئی۔بھارت کے کسی بھی حکمران نے ’’بھارت ماتا‘‘ کی تقسیم کی حقیقت کو دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔مسئلہ کشمیر بھی اسی تناظر میں نمودار ہوا تھا اور ابھی تک اپنی جگہ پوری شدت سے موجود ہے۔دریں اثناء بھارت میں بتدریج راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مضبوط تر ہونا شروع ہوگئیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس کا سیاسی روپ ہے۔اس تنظیم کا حتمی ہدف ’’مہا بھارت‘‘ کی بحالی ہے۔2014میں بھارتی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوجانے کے بعد نریندر مودی اور اس کی جماعت نہایت ڈھٹائی سے اس ہدف کے حصول میں مبتلا دکھائی دے ری ہے۔’’شہریت‘‘ کے نام پر بنائے قوانین مودی سرکار ہی نہیں بلکہ اس کے ’’نظریاتی سرپرستوں‘‘ کے عزائم کا بھرپور اظہار ہیں۔5اگست 2019کے روز مقبوضہ کشمیر کے خلاف اٹھائے اقدامات اسی سوچ کے عکاس ہیں۔ہمارے خطے میں ’’بھارتی بالادستی‘‘ کا خواب پاکستان کی ابدی پریشانی کا کلیدی سبب ہے۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو مسئلہ کشمیر کا ہماری خواہشات کے مطابق کوئی حل دریافت ہوبھی جائے تب بھی ہم ’’بھارتی بالادستی‘‘ کے عزائم سے غافل رہنے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہر صورت برقرار رکھنا اس تناظر میں لازمی ہے۔میں دفاع کے حوالے سے نمودار ہوئے مختلف نظریات سے کماحقہ آگا ہ نہیں۔یہ اصول مگر کبھی بھول نہیں سکتا کہ اپنی دفاعی ترجیحات طے کرتے ہوئے ہر ریاست کو اپنے ہمسائے میں موجود ریاستوں کے عزائم پر ہی نہیں عالمی طاقتوں کی طویل المدت ترجیحات پر بھی کڑی نگاہ رکھنا ضروری ہے۔اس تناظر میں اکثر یہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ہر ریاست کو اپنی بقا یقینی بنانے کے لئے اپنے حقیقی یا ممکنہ حریف کی ’’نیت‘‘ نہیں ’’فوجی صلاحیت‘‘ پر ہمہ وقت توجہ مبذول رکھنالازمی ہے۔ہندوتوا کے خواب کے ساتھ بھارت اپنے ایٹمی پروگرام کو برقرار رکھنے کے علاوہ جدید تر بناتا رہے تو ہم یہ سوچتے ہوئے اسے نظرانداز نہیں کرسکتے کہ مذکورہ پروگرام کا اصل حریف عوامی جمہوریہ چین ہے۔ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے بھارت اور چین کے مابین مسابقت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ وہ دونوں مگر خودمختار ممالک ہیں۔وہ جانیں اور ان کا کام۔اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کو ہندوتوا کے خواب کے تناظر میں اپنے طورپر ہی کوئی انتظامات کرنا ہوں گے۔ہمارا ایٹمی پروگرام اس تناظر میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔اسے فقط مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ نتھی کردینا خام خیالی ہے۔اس کے سوا کچھ نہیں۔