کراچی(نیوز رپورٹر) اکادمی ادبیا ت پاکستان کراچی کے زیراہتمام ’’ممتاز شاعر،ادیب ، نقاد پروفیسر جاذب قریشی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس و مشاعرہ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس صدارت ملک کے امریکا میں مقیم معروف شاعر رفیع الدین رازنے کی ۔مہمان خاص معروف شاعرہ ڈاکٹر حناعنبرین طارق، معروف شاعرہ فرح جعفری۔ تھیں۔ رفیع الدین راز نے صدارتی خطاب میں کہا کہ جاذب قریشی اپنے تجربے کی بنا پر جانتا ہے کہ اس کا زمانہ پرچھائیوں کا زمانہ ہے یعنی ایسے افراد کا جواپنے خدوخال نہ رکھتے ہوں۔ یہ سایہ آسالوگ ایک جیسے گھروں میں رہتے ہیں ۔ ایک سالباس پہنتے ہیں ایک سی زبان بولتے یں اور سب سے زیاد ایک ہی طرح سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ویساہی ہے جسا دوسرا ہے۔ کسی کی کوئی شناخت نہیں کوئی پہچان نہیں ی بے چہرہ لوگ ہیں۔ جاذبؔ ان لوگوں کے درمیان ایک ایسا فردہے ۔ میں نہیں کہنے جارہاہوںکہ جاذب ؔ ایک ایسافرد ہے جس کا اپنا چہرہ ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہاہوں کہ جاذب ایک ایسا فرد ہے جسے اپنی بے چہرگی کا احساس ہے اور اسی احساس نے جاذب قریشی کو شاعر بنادیا ہے اک ایسا جو اس بے چہرہ منظرنامے میں نہ صرف اپنا بلکہ اپنے عہد کا چہرہ تلاش کررتا ہے۔ ڈاکٹر حناعنبرین طارق نے کہاکہجاذب کی شاعری میں دوچیزیں بہت نمایا ہیں ایک توان کا عصری شعور اور دوسرے ان کے منفرد تلازمے، وہ نئے زندہ جاندار اور سچے استعارے اور امیجز تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں گو و ہ انہیں اس طرح توڑتے ہیںکہ کبھی بھی تصویر مکمل نہیں بن پاتی جس کی وجہ سے ان کی شاعری کی تفہیم میں عام لوگوں کو وقت ہوتی ہے ان کے استعاروں کا نظام بھی ایک ایسی پیچیدگی رکھتا ہے جسے سمجھنے کے لئے شاعری کی سرسری سماعت کافی نہیں ہے۔