اسلام آباد (نامہ نگار) پارلیمنٹ سے منظور کئے جانے کے بعد الیکشن ترمیمی بل 2022ء اور قومی احتساب بیورو بل 2022ء قانون کا حصہ بن گئے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کی شق 2 کے تحت پارلیمنٹ میں دونوں قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ دونوں بلوں کو دستخط کے بغیر واپس بھجوا دیا تھا۔ دونوں بلوں کی منظوری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے لی گئی تھی۔ مشترکہ اجلاس سے منظوری کے دس دن کے اندر منظور شدہ دونوں بل خود بخود قانون بن گئے۔ نیب ایکٹ میں چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے جس کے مطابق چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا، ڈپٹی چیئرمین نیب کا تقرر صدر کے بجائے اب وفاقی حکومت کرے گی۔ نیب ترمیمی ایکٹ کے مطابق نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے مشاورت کا عمل 2ماہ پہلے شروع کیا جائے گا اور 45روز میں مکمل ہوجائے گا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30روز میں فائنل کرے گی، چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔ ایکٹ کے مطابق ٹیکس، وفاقی صوبائی کابینہ، کونسلز، سٹیٹ بینک کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگئے ہیں۔ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے، مالی فائدہ لینے کے ثبوت کے بغیر طریقہ کار کی خرابی پر نیب کارروائی نہیں ہوگی، وفاقی اور صوبائی ٹیکس معاملات بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں۔ نیب ترمیمی بل کے مطابق وفاقی، صوبائی قوانین کے تحت بنی ریگولیٹری باڈیز کے کیسز پر نیب کا اختیار ختم ہوگیا۔ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا۔ نیب قانون میں محض گمان پر ملزم کو سزا کی شق 14 ختم کردی گئی۔ چیئرمین نیب ملزم کے فرار ہونے یا شہادتیں ضائع کرنے کے ٹھوس شواہد پر وارنٹ جاری کرسکیں گے۔ نیب افسران پر انکوائری یا انویسٹی گیشن کی تفصیل عام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، عام کرنے کی صورت میں نیب افسر کو ایک سال قید، دس لاکھ جرمانہ ہوگا۔ ایکٹ کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3سال کے لیے ہوگی، مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کیے جائیں گے، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی، گرفتاری سے قبل نیب شواہد کی دستیابی یقینی بنائے گا، جھوٹا ریفرنس دائر کرنے پر 5سال تک قید کی سزا ہوگی۔