اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ریاست بچ جائے سیاست کی فکر نہیں اسی سوچ کے تحت فیصلے کررہے ہیں۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد کئی چیلنجز کا سامنا تھا، پہلے سوچ تھی کہ اصلاحات کر کے الیکشن کی طرف جائیں، تاہم اتحادیوں کا پھر مشترکہ فیصلہ ہوا کہ 14 ماہ کی آئینی مدت پوری کریں گے۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیرا عظم نے کہا کہ مارچ میں تیل کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی تھی، مگر گذشتہ حکومت نے تیل کی قیمت کو کم کر دیا۔ سابق حکومت کا دوست ممالک سے بھی افسوس ناک رویہ رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے کیے معاہدے پرعمل نہیں کیا، ایک ایک کر کے معاہدے کی دھجیاں اڑائی گئیں، آج آئی ایم کہتا ہے کہ ہم آپ پر کیسے اعتبار کریں، سابق حکومت کے غلط فیصلوں کا خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔ بہت مشکلات کا سامنا ہے، ہم آج بھی کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر اسلامی ممالک نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا، لیکن یہ کب تک ہماری مدد کریں گے اور ہم کب تک ان سے مانگتے رہیں گے، وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے اور آخر کب تک ہم سے مانگتے رہیںگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے مجبوراً تیل کی قیمت بڑھائی، مشکل فیصلے کرنے پڑے، ریاست بچ جائے سیاست کی فکر نہیں، اسی سوچ کے تحت فیصلے کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے واضح ہدایت دی تھی کہ کم سے کم لوڈشیڈنگ ہو، ابھی بھی لوڈشیڈنگ ہے مگر جلد اس پر قابو پا لیں گے۔ گزشتہ حکومت میں سستی گیس کے معاہدے ہوئے ہوتے تو لوڈشیڈنگ کی صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، ان کی سنگین غلطیوں کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے۔ اس بجٹ سے عوام پر بوجھ بڑھا ہے مگر ہم نے ریلیف بھی دیا ہے، ماضی کی حکومت نے کارٹلز کو فائدہ پہنچایا، مفت ادویات اور علاج ختم کردیا، لیپ ٹاپ کے حوالے سے کافی منفی باتیں کی گئیں، لیکن کرونا میں وہی لیپ ٹاپ روزگار کا وسیلہ بنا۔ ہم سب نے مل کر اس قوم کو بنانا ہے، یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، چند دنوں میں قوم سے دوبارہ خطاب کروں گا۔ شہبازشریف نے کہا کہ ہم نے عہد کیا ہے پاکستان کو کھویا ہوا مقام واپس دلوانا ہے، محنت کریں گے تو خوشحالی اور ترقی ہمارا مقدر بنے گی، رونے دھونے کی بجائے فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں بہتری لانی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومی مفاد کے حوالے سے بات چھپا سکتا ہوں لیکن سچی بات کروں گا، کوئی دھوکا نہیں دوں گا، دودھ شہد کی نہریں بہانے کی بات نہیں کروں گا، آئی ایم ایف سے ہمارا معاہدہ تقریباً طے ہوگیا ہے، اسلامی ممالک سے ہمارے تجارتی رشتے بڑھیں گے، قوم کو خوشحالی اور ترقی کی طرف لے کر جانا ہماری ذمہ داری ہے، مل کر شبانہ روز محنت کریں، قومی ترقی کے فیصلے سر فہرست رکھیں۔ زیراعظم محمد شہباز شریف نے پہلے ریاست اور پھر سیاست کو اتحادی حکومت کی ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط طے پا گئی ہیں، چین پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر فراہم کر رہا ہے، سابق حکومت کی سنگین غلطیوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، آئی ایم ایف کے ساتھ 30 روپے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس کا معاہدہ کیا، ساڑھے تین سال قوم کو ایک دھیلے کا بھی ریلیف نہ دیا، موجودہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجبوراً اضافہ کیا، پہلی بار صاحب ثروت افراد پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے، لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیں گے، پاکستان کھویا ہوا مقام جلد حاصل کر لے گا۔ سابق حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی تھیں، لیکن عالمی منڈی کے مطابق قیمتیں بڑھانے کے وعدے پر عمل نہیں کیا اور اپنے کئے ہوئے معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں، مارچ میں جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں زیادہ تھیں تو پی ٹی آئی حکومت نے تحریک عدم اعتماد میں اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے اچانک قیمتیں کم کر دیں، پی ٹی آئی حکومت نے تیل کی مد میں کوئی رقم مختص نہیں کی اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی، اور خزانہ خالی کر دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ آنے والی حکومت کیلئے جال بچھا کر جائے، تیل کی قیمتیں بڑھنے پر میاں نواز شریف سمیت سب سیاسی رہنمائوں کو تشویش تھی۔ ہمیں اب اپنی اصلاح کرنی ہے، پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، ریکوڈک جیسا منصوبہ فعال نہیں ہوا، یہاں پر اربوں کھربوں ڈالر کے خزانے ہیں لیکن ہم آج بھی ان سے فائدہ اٹھا نہیں پا رہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط تقریباً طے ہو چکی ہیں، اگر مزید شرائط نہ لگا دی گئیں تو اگلے چند دنوں میں معاہدہ ہو جائے گا، ہم نے آئی ایم ایف معاہدے کے ذریعے معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ہے لیکن خوشحالی راتوں رات نہیں آئے گی، ہمیں مالیاتی استحکام لانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا راستہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، ابھی مشکلات آنی ہیں، قومی ترقی و خوشحالی کے فیصلوں کو سرفہرست رکھیں گے، ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر ترقی و خوشحالی ہماری اولین ترجیح ہو گی، قوم سے غلط بیانی نہیں کروں گا اور نہ ہی قوم کو دھوکہ دیں گے، یہ نہیں کہیں گے کہ 300 ارب ڈالر لے کر آئیں گے، دودھ اور شہد کی نہریں بہانے اور نئے پاکستان کی بات نہیں کریں گے، پاکستان وہی ہے جو قائداعظم کا پاکستان ہے، قوم کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جانے کیلئے حکومت، سیاسی قیادت اور تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی پر بوجھ پڑا ہے لیکن عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے 2 ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا، تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ میں صاحب ثروت لوگوں پر نیٹ انکم ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں جب گیس کی قیمتیں کم تھیں تو ماضی کی حکومت نے معاہدہ نہیں کیا۔ اگر معاہدہ کیا گیا ہوتا تو آج ملک کو سستی گیس مہیا ہو رہی ہوتی، نواز شریف کے دور میں 13 ڈالر پر ایل این جی مل رہی تھی، ہمیں گیس کی ضرورت ہے لیکن اب مل نہیں رہی، چین کی حکومت سے سی پیک کی بحالی اور ایم ایل ون منصوبہ پر بات ہوئی ہے، چین کے وزیراعظم نے ایم ایل ون منصوبہ میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اور سعودی عرب نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی لیکن ہماری روایات اور پرانے تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا، موجودہ حکومت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے حوالہ سے کل بڑی خوشخبری ملی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ترسیلات زر بھجوانے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ سابق حکومت کو سچ بولنا چاہئے اور قوم سے معافی مانگنی چاہئے لیکن دھوکہ دینا اور جھوٹ بولنا ان کی سیاست ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ہوش کے ناخن لینے ہیں اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرنا ہے، ترقی یافتہ قوموں کے نقش قدم پر چلنا ہے، وزیراعظم نے کہا ریکوڈک سے استفسادہ نہ کرنا قیادت کا قصور ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں بڑے ڈیموں کا سنگ بنیاد رکھا، ڈیموں سے 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے، یہ منصوبے دہائیوں پر مکمل ہو جانے چاہئیں تھے، ہم مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے، اس کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، 12 بجے اٹھ کر بھاشن دینے سے ملک ترقی نہیں کرتے، دن رات محنت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آہستہ آہستہ کشکول توڑ کر دم لیں گے اور قومی وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ چین کے وزیراعظم سے کہا سی پیک کو بحال کرنا ہے۔ چین کے وزیراعظم نے کہا ہم تیار ہیں، ایم ایل ون کو سپورٹ کریں گے۔ تمام تر الزام تراشی کے باوجود چین کے وزیراعظم نے کہا پاکستان کے ساتھ ہیں۔ چین نے 20,20 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ میں سی پیک کے تحت بجلی کے پلانٹ دیئے، پچھلی حکومت نے کہا اس میں کرپشن ہوئی ہے۔ اس پر چین پر کیا گزری ہوگی۔ چین کے وزیراعظم نے ایک لفظ کا بھی گلہ نہیں کیا۔ دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف نے ملک میں قیمتی معدنیات کی تلاش اور حصول کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی پیداوار اور دیگر صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال کا زیادہ سے زیادہ حصہ مقامی سطح پر پیدا کر کے ملک کا قیمتی زر مبادلہ بچایا جا ئے۔ ان خیالا ت کا اظہارانہوں نے وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس مولانا عبدالواسع کی سربراہی میں آل پاکستان مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے کیا جنہوں نے جمعرات کو ان سے ملاقات کی۔ مختلف تجاویز زیر بحث آئیں۔ وزیر اعظم نے اس سلسلے میں تھر اور لاکھڑا میں موجود کوئلے کے ساتھ ساتھ میانوالی اور چنیوٹ میں دریافت شدہ لوہے کے ذخائر سے بھرپور استفادہ کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے مائننگ سیکٹر کی ترقی کے لیے عملی تجاویز مرتب کر کے جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے، کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایات جاری کیں۔ وزیر اعظم نے ماہرین کی تلاش کے لیے وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی بنانے کا بھی حکم دیا۔ ملاقات میں وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر، وزیر اعظم کے مشیر احد چیمہ، وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو عاصم احمد اور دیگر حکام نے بھی شرکت کی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ مری ایکسپریس وے کی مرمت کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں، ہر 15 کلومیٹر پر بہترین معیار کے ریسٹ ایریاز بنائے جائیں، غیر قانونی تعمیرات کو روکا جائے، نیو مری کیبل کار اور چیئر لفٹ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کے لئے انٹرنیشنل بڈنگ کرائی جائے، تعمیراتی منصوبوں سے مری کے قدرتی حسن اور لینڈ سکیپ کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم نے مری کے دورے کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی موجود تھے۔ اس دوران این ایچ اے حکام نے بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے کہا ہزارہ موٹروے پر کام کرنے والی کمپنی سے مشاورت اور رہنمائی حاصل کر کے معیاری کام کیا جائے۔ شہباز شریف نے ایکسپریس وے پر جگہ جگہ غیر قانونی تعمیرات روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سیاحوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جائیں۔ وزیراعظم نے مری کے لئے پانی کی ضروریات پوری کرنے کا منصوبہ مکمل کرنے اور تعلیمی سہولیات بہتر بنانے کی بھی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ نیو مری کی تعمیر اس انداز میں کی جائے کہ قدرتی حسن متاثر نہ ہو۔ مزید برآں وزیر اعظم شہباز شریف نے افغانستان میں تباہ کن زلزے کے تناظر میں افغان عوام کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی کے اظہار کے لیے افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔ قیمتی جانوں کے ضیاع اور نقصان پر پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے افغانستان کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی امدادی کوششوں کے بارے میں بھی تفصیلات بتائیں جن میں ہنگامی ادویات، خیموں، ترپالوں اور کمبلوں کی ترسیل شامل ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ غلام خان اور انگور اڈہ سرحدی کراسنگ پوائنٹس کو پاکستانی ہسپتالوں میں علاج کے لیے شدید زخمی افغانوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف سے شیخ عبدالعزیزحماد الجومعہ کی سربراہی میں کے الیکٹرک کے وفد نے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیر اعظم کو کے الیکٹرک کے نیپرا سے متعلق دیرینہ حل طلب مسائل سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم آج گوادر کا دورہ کریں گے۔ وہ گوادر بندرگاہ، پاک چین بزنس سینٹر کا دورہ کریںگے اور مختلف اجلاسوں کی صدارت کریںگے۔ وزیر اعظم کا یہ پہلا دورہ گوادر ہو گا۔ مزید برآں وزیراعظم شہباز شریف نے فاروق ستار سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور فاروق ستار سے والدہ کے انتقال پر تعزیت کی اور مرحومہ کے درجات کی بنلدی کیلئے دعا کی۔