ابھی تو پولیس ملک بھر میں سینکڑوں افراد کو بلیک میل کر کے لوٹنے والی کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان کی عظمیٰ شہزادی بارے معلومات ہی اکٹھی کر رہی تھی کہ ملزمہ کی ضمانت بھی ہو گئی۔ میرے سامنے اس کے خلاف درج مقدمات اور لوٹ مار کے ثبوتوں کی ایک پوری فہرست پڑی ہے۔ ایسا ملک جہاں ایک رکن اسمبلی بھاری عوامی نمائندگی کے ساتھ منتخب ہو اور دوہرے شناختی کارڈ کی مشکوک کہانی پر تین سال تک نااہل رہا ہو۔ جہاں ہزاروں بے گناہ سالہا سال سے جیلوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہوں، ایسے ملک میں عظمیٰ شہزادی نامی عورت کئی شناختی کارڈ، کئی نام اور ایڈریس تبدیل کرکے کروڑوں لوٹ کر کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان سے لاہور کے پوش علاقے میں رہائش اختیار کر چکی ہے اور کئی مرتبہ گرفتار ہونے کے باوجود اپنے لاتعداد سہولت کاروں کی بدولت 24 گھنٹوں میں رہائی پاتی ہے اور اپنی گود میں لاکھوں روپے رکھ کر تصاویر بنواتی ہے۔ ایسا ملک جہاں کوئی سرکاری آفیسر اس سے بلیک میل ہونے کے بعد اپنی اہلیہ اور بیٹی کی شادی کے لئے بنایا گیا زیور فروخت کر کے اس عورت کے چنگل سے آزاد ہو، جہاں میرٹ پر مقدمات درج کرانے کے خواہش مند تھانوں میں آئے روز دھکے کھائیں اور رسوا ہوں، جہاں جیلوں میں اپنوں سے ملاقات کے لئے آنے والی خواتین کے لئے عزت بچانا مشکل کر دیا گیا ہو۔ وہاں کے پی کے کے سینئر سول جج سے پیسے بٹورنے اور لودھراں میں تعینات ایک ڈی ایس پی کو اس کے ماتحت ملازمین کے سامنے اس کے دفتر میں تھپڑ مارنے والی کے خلاف کوئی کارروائی شروع ہونے لگے تو سہولت کار آڑے آ جائیں وہاں سے صاحب ثروت اور صاحب حیثیت افراد کا اپنی دولت سمیت کوچ کرنا ہی بہتر ہے۔ مجھے ایک اعلی سرکاری عہدے دار کا جملہ اکثر یاد آتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ یہ ملک تو ٹھیک نہیں ہو سکتا اس لئے ایسے ملک چل کر رہو جو پہلے ہی سے ٹھیک ہو۔
چند جماعت پاس ایک آوارہ لڑکی کے خلاف چند سال قبل اہالیان کوٹ سمابہ کے دستخطوں کے ساتھ پولیس کے ڈی ایس پی کو دی گئی درخواست میرے سامنے پڑی ہے جس پر تمام سیاسی، سماجی اور تاجر تنظیموں کے عہدے داران کے دستخط موجود ہیں‘ درخواست کا متن کچھ یوں ہے۔ بخدمت جناب ڈی ایس پی صاحب، صدر سرکل رحیم یار خان۔ جناب عالی گزارش ہے کہ ایک عورت جو کہ کوٹ سمابہ کی رہائشی ہے، مذکورہ عورت اہالیان کوٹ سمابہ کے لئے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ یہ عورت شہر کے معزز حضرات کو ان کی دکانوں اور کاروباری اداروں میں جا کر پسٹل دکھاتی ہے اور مختلف تھانوں میں مختلف ناموں سے درخواستیں دے کر شریف شہریوں کو بلاوجہ تنگ کر کے پریشان کرتی ہے اور رقم لے کر جان چھوڑتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس عملہ اور افسران بھی اس سے خوف کھاتے ہیں مذکورہ عورت شہر کے تمام دکانداروں کو بلیک میل کرتی ہے اور جھوٹی درخواستیں دے کر بھی رقوم بٹورتی ہے۔ اس کی ساری درخواستوں میں دستخط اور موبائل نمبر ایک ہی ہوتے ہیں مذکورہ عورت کو پولیس کی آشیر باد حاصل ہے اور کئی مرتبہ بے گناہ شہریوں کو پولیس سے ملکر حوالات میں بند کروا چکی ہے۔ یہ پولیس اور بعض تنظیموں سے تعلق کا کہہ کر عزت دار شہریوں کو ڈراتی ہے۔
گزارش ہے کہ اس خطرناک عورت کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے اس درخواست پر درجنوں افراد کے دستخط ہیں اور یہ درخواست 2016ئ میں چھ سال قبل دی گئی، ان دنوں اس خاتون نے جو کہ ایک مرحوم پولیس ملازم کی بیٹی بتائی جاتی ہے، جرائم کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ پھر پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی سرپرستی میں چند ہی سالوں میں یہ اپنے شعبے میں پرموٹ ہوتی گئی حتیٰ کہ اس نے گورنر ہاوس لاہور کے ایک سینئر آفیسر کے خلاف بھی اسی نوعیت کا مقدمہ درج کرایا جس قسم کا ملتان میں ڈپٹی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے خلاف درج ہوا۔ ایک جیسی فرضی کہانی مگر مختلف ناموں، مختلف شناختی کارڈ نمبروں اور مختلف ایڈریس کے ساتھ ساتھ مختلف ولدیت کے ساتھ پنجاب کے مختلف تھانوں میں یہ عورت اپنی عزت اجڑنے کے درجنوں مقدمات درج کرا چکی ہے۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کا 15 نظام اس کے اشارے پر فوری حرکت میں آ جاتا ہے تھانہ نواب ٹاون لاہور، تھانہ سندر لاہور،تھانہ سیتل ماڑی ملتان سمیت پنجاب کے متعدد تھانوں کی پولیس اس کی کال پر چند ہی لمحوں میں جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے حتیٰ کہ فوری کارروائی بھی کرتی ہے۔
سی پی او ملتان خرم شہزاد حیدر اچھی شہرت کے حامل ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ اس خاتون کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے اور اب اسے جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ یہ سزا ہو گی کیونکہ ان کے پاس بھی ملک بھر سے معلومات پہنچ چکی تھیں مگر اس کی ضمانت ہو گئی اور وہ بھی 30 ہزار کے ضمانتی مچلکوں کے عوض۔ رہا ایس ایچ او ملتان کینٹ کا معاملہ تو اس پر اس خاتون کے سفارشیوں کا اتنا دباو رہا کہ اس کی نوکری داو پر لگ گئی۔ پاکستان کے ان حالات کی عکاسی کرتے ہوئے کسی نے خوب کہا ہے؟ ’’لچا منگے پیڑے اس نوں دین والے بتھیرے، بیبا منگے آٹا اس نوں آٹے دا وی گھاٹا‘‘ یعنی اس ملک میں بدمعاش اور بدقماش کسی سے لڈو پیڑوں کی فرمائش کرے تو بہت سے لے کر حاضر خدمت ہو جائیں اور شریف آدمی آٹا بھی مانگے تو کوئی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
کوہاٹ سے ایک شخص کوئی ناجائز سامان کی بھاری مقدار ملتان لا رہا تھا کہ راستے میں پنجاب کے ایک ضلع میں پکڑا گیا۔ رقم ٹرانسفر ہوئی اور سہولت کار حرکت میں آ گئے، مقدمہ معمولی جرم پر درج ہوا اگلے ہی روز ایک لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت ہو گئی۔ ایسے واقعات پاکستان میں تسلسل سے ہوتے ہیں اور کسی کو اس کا احساس ہی نہیں کہ عدلیہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے 130 نمبر کو کراس کر چکی ہے پولیس والے تو اب بدنامی کے حوالے سے محض اپنی پرانی ’’ساکھ‘‘ پر ہی زندہ ہیں ورنہ بہت سے محکمے پولیس کو سالہا سال قبل اس میدان میں عبرتناک شکست دے چکے ہیں کوئی ایک ریفرنس ہو تو لکھوں اس شہر ملتان میں تو اربوں روپے کے اراضی سکینڈل میں ملوث ایک شخص اکثر اوقات پیشی کے بعد رات گھر گزار کر واپس جیل جاتے رہے ہیں اور پھر ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں موت کے منہ میں جانے کے بعد عدالتوں سے بری ہوتے ہیں۔ میں نے تو آوارہ گردی کے الزام میں بھی لوگوں کو کئی کئی ماہ جیل کاٹتے دیکھا ہے جس کی شخصی ضمانت از خود ایس ایچ او لے سکتا ہے دنیا بھر میں ہو نہ ہو مگر پاکستان میں قانون مکڑی کا جالا ہی ہے جہاں سے تھوڑی سی طاقت والا بھی باآسانی نکل سکتا ہے۔ویسے عظمیٰ شہزادی کی رہائی تو 30 ہزار کے مچلکوں کے عوض ہوتی ہے یہاں تو لوگ سو روپے کے اسٹامپ پر بھی رہا کر دئے جاتے ہیں۔ اب چل "محترمہ" عظمی شہزادی کسی اور کی عزت اور دولت پر ڈاکہ ڈال کہ یہاں لٹیروں کو ہی ہر قسم کی رعایت میسر ہے۔
اور ضمانت ہو گئی۔۔۔
Jun 24, 2022