وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے حواریوں کی حکومت کو آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں کہ’ سر منڈاتے ہی اولے پڑے ‘ کے مصداق انہیں شائد اندازہ ہی نہ تھا کہ برسر اقتدار آتے ہی ہمارا کیا حال ہو گا۔ ہمارے ہی ہاتھوں پسی ہوئی غریب عوام کا کیا حال بنے گا۔ان حالات میں ہوشربا مہنگائی نے عوام کو دن میں تارے دکھا دئیے۔ ملکی تاریخ میں ےکدم ہر پندرہ اور مہینے بعد پٹرولیم مصنوعات میں 20سے30روپے فی لٹر اضافہ، ڈالر کو لگے پر سے مہنگائی بے قابو ہے اور روپے کی قدر کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔ پھر اس تجربہ کار حکمرانوں نے عوام کہ 2ہزار روپے کی امداد اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے اس امدادی رقم کا تصرف کرنے کا طریقہ کہ اس رقم سے کس کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اور کہیں سے وفاقی وزیر احسن اقبال کی جانب سے چائے کی پیالی دو سے کم کر کے ایک پر اکتفا ءکرنے کا مشورہ۔ ایسی صورتحال میں عوام نے سوشل میڈیا پر حکومت کا خوب مذاق اڑایا ۔
بہر حال فیٹف مسئلہ پر وزیراعظم شہباز شریف عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں اور طفل تسلیاں ایسی کہ چند دنوں میں کوئی خزانہ ہاتھ لگنے والاہے بس پھر موجاں ہی موجاں۔وزیر اعظم کا کہنا ہے،”بہت مشکل حالات میں ذمہ داری سنبھالی ہے، مشکل اور جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں تاکہ معیشت کو مضبوط کرسکیں۔ سابق حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی خود دھجیاں اڑائیں، معاہدہ کرنا تھا تو پاسداری کرتے، آج مشکلات اس معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث پیش آرہی ہیں، مجبوری ہے مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ مشکل فیصلوں سے اچھا وقت آئے گا“۔فیٹف مسئلہ بلاول بھٹو اور حنا ربانی کی کاوش سے حل ہو ا ہے اور عوام بلاول بھٹو اور حنا ربانی کو ہی کریڈٹ دیتی ہے ۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف دور حکومت میں وزیر اعظم ہاﺅس میں پالی ہوئی بھینسیں فروخت کرنے،غریب عوام میں انڈے، مرغیاں دے کر انہیں خوشحال اور مال و مال کرنے کے منصوبے بتائے تھے ۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف سرکاری امداد 2ہزار کے تصرف بتا رہے ہیں کہ حالیہ منگائی کا کیسے توڑ ہو سکتا ہے ۔
بہر حال اس امداد کا کیا اور کیسے مصرف ہو گا،یہ امداد کس کس کو ملے گی لیکن عوام حکومت سے خفا ہے اور اس کی ہوشرباءوجہ مہنگائی ہے۔ ادویات کی قیمتوں سے اضافہ سے مریض اور ان کے لواحقین پریشان ہیں۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصدق مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہو چکا ہے۔ شہر قائد میں پراٹھا 40روپے کا ہو گیا، چائے دودھ پتی 50روپے کی ہو گئی۔ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانا اضافہ،لیکن 30,30اور 25روپے فی لٹر اضافہ پر اگر 10روپے بھی بڑھائے گئے تو زیادتی نہیں لگتی۔ اچانک دودھ کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لٹر/کلو اضافہ کی شنیدہے جس کی بنیادی وجہ گیس ، بجلی کے اضافہ ہیں اور حکومت نے ان ڈیپارٹمنس کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ جس طرح من چاہے غریب عوام کا خون چوسیں۔عوام پوچھنا چاہتی ہے کہ اب تو ملک سے سلیکٹڈ حکومت جا چکی، پھر مہنگائی اس قدر کیوں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں وہاں کے شہریو ں کا کردار کلیلدی ہو تا ہے بظاہر ہر دوسرا شہر ی یہی سو چ بچا ر کرنے کے بعد سر کو جھٹلا دیتا ہے کہ وہ اکیلا ملک و قوم کہ ترقی ک لئے کیا کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے کسی ایک با اختیار سپہ سلار کے موئثر اور دور رس فیصلے اور اقدامات ملک کی امن و سلامتی کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اکیلی شخصیت جستجو اور جد و جہد سے ہر دوسرے شخص کی انفرادی و اجتماعی زندگی پراچھے اثرات مر تب ہو تے ہیں ۔ ملک میں بسنے والا ہر دوسرا شہر ی مثبت اور تعمیری سوچ اپنا ئے توملک و قوم پر اثرات مر تب ہو تے ہیں ۔یہی وجہ ہے کی اسی مثبت اور تعمیری کردار اور سوچ سے بعض قومیں بالخصوص چین ، کوریا ، ہا نگ کا نگ و دیگر ممالک نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی ہے ۔ آج صو رت حا ل یہ ہے کہ چین کی معیشت پوری دنیا میں متعارف ہے اور دنیا کے ترقی یا فتہ مما لک اس کی مصنوعات استعمال کر نے پر مجبو ر ہیں اور اس حقیقت سے کسی صو ر ت انکا ر نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بے شمار در آمد شدہ اشیاءکی بجائے مقامی طور پر بننے والی مصنوعات کو ترجیح دی جائے تو اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں شہباز شریف نے200سے زائد آئٹمز کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ضمنی و مخفی فوائد ہماری قوم و ملک کو ہوںگے‘ ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔ مقامی مصنوعات اور پیداوارکے بڑھتے ہوئے استعمال سے درآمدات میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ ملک میں دستیاب وافر معدنیات اور ذخائر کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے ۔ لیکن یہ ہمارے لئے ستم ظرفی یہ ہے کہ ہم مقامی مصنوعات کی بجائے درآمد شدہ اشیاءکو ترجیح دیتے ہیں جو کہ مقامی مصنوعات سے کئی گنا مہنگی ہوتی ہے لیکن ان کاا ستعمال کرکے ہم فخر محسوس کرتے ہیں‘ اگر ایک لمحے کے لئے غور کیا جائے تو ہمارے ملک میں چھوٹی چھوٹی چیزیں درآمد کی جاتی ہیں ۔ اگرچہ بعض در آمد شدہ مصنوعات مقامی سطح پر بننے والی مصنوعات ا وردستیاب وسائل کے مقابلے میں انتہائی ارزاں ہیں لیکن یہ سستی مصنوعات کے استعمال پر ہماری پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ درآمدات میں ا ضافہ‘ بے روزگاری کا سبب بنا ہے۔ حتیٰ کہ کئی صنعتیں اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ روز بروز گرتی جا رہی ہے اور سرمایہ کاروں کو اربوں کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے ، شرح کرنسی کے اضافہ سے ہر دوسری چیز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔آجر اور سرمایہ کار اپنے کاروبار بیرون ممالک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں‘ جس کی مثال ٹیکسٹائل کی صنعت ہے۔ ہمارے ملک سے ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہوئی۔ صنعتیں زوال پذیر ہونے سے ملک میں ترقی اور پیداواری عمل متاثر ہوا ہے‘ سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے ہماری صلاحیتوںسے از خود ہماراملک استفادہ نہیں کررہا بلکہ ہماری باصلاحیت نوجوان نسل بیرون ممالک خدمات سر انجام دینے کو ترجیح دیتی ہے‘ جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم اپنے خوابوں کی حقیقی تعبیر چاہتے ہیں۔ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہیں‘ تو انفرادی طورپر ہمیں ملک و قوم کے مفاد میں مثبت سوچ اور ویژن کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ ہماری یہ سوچ ہے کہ اگر اکیلے اس نے اس ملک سے حب الوطنی کا کردار ادانہ کیا تو کونسی قیامت آجائے گی‘ ایسا ہرگز نہیں‘ اگر ہر دوسرا شخص مثبت سوچ و فکر رکھے تو وہ بہتر کم بھی کرے گا ہمیں اسی مثبت سوچ و فکر ا ور جذبہ حب الوطنی کی ضرورت ہے تاہم آج کل کے دور میں ۔