اچھے دنوں کی امید، سہانا خواب اور کم ہوتے ڈالرز!!!!

بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں کلین سویپ سے ثابت ہوگیا کہ مداخلت نہ ہو تو پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن جیت جاتی ہے۔ ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ککری گراو¿نڈ سے ضیاءالحق اور پرویز مشرف کو گھر بھیجا اور اسی ککری گراو¿نڈ سے سلیکٹڈ کو للکارا تھا، ہمارا مخالف کوئی فرد نہیں بلکہ غربت اور مہنگائی ہے۔ بلاول بھٹو جوش خطابت میں بہت کچھ بولتے ہیں اور ایسا بولتا ہیں کہ ٹرینڈز بنتے ہیں۔ انہوں نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بہت محنت کی ہے وہ وزیراعظم بننے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنے کارکنوں کو اچھے دنوں کی امید بھی دلا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں انہوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اچھے دن آئیں اور وہ صرف بلاول بھٹو زرداری یا ان کی جماعت کے وزراءاور مشیران کرام کے اچھے دن نہ ہوں بلکہ ان اچھے دنوں میں ایک عام شہری کا بھی حصہ ہو۔ اچھے دنوں کی امید کوئی نئی بات نہیں ہے۔ زیادہ پیچھے نہ جائیں جب عمران خان ملک کے وزیراعظم تھے تو اس وقت مشہور گلوکار عطاءاللہ خان عیسی خیلوی گایا کرتے تھے
آئیں مشکلیں جتنی بار
ٹل گئی ہیں میرے یار
اچھے دن آئے ہیں
دھرتی کا قرض تو نے ہی اتارا ہے
جس نے بھی لوٹا اسے للکارا ہے
دشمن سرمایہ دار تجھے مان گئے سرکار
اچھے دن آئے ہیں
مافیا کے سامنے تو ڈٹ کے کھڑا ہے
کیس کشمیر کا دلیری سے لڑا ہے
افغان ہوئے بیدار رنگ لائے تیرے افکار
اچھے دن آئے ہیں یقینا آئے ہیں
اس کے بعد عطاءاللہ عیسی خیلوی نے یہ ترانہ بھی گایا
جب آئے گا عمران سب کی جان 
بڑھے گی اس قوم کی شان 
بنے گا نیا پاکستان 
یہ پی ٹی آئی کی تین سالہ کارکردگی کے حوالے سے رکھی گئی تقریب تھی جہاں پی ٹی آئی قیادت اور ورکرز بھی موجود تھے یہ نعرے بھی لگ رہے تھے عمران تیرے جانثار بے شمار بے شمار 
آج جب دیکھتے ہیں نعرے لگانے والوں کی قیادت کرنے والے تیز ہوا میں گرنے والے درختوں کے پتوں کی طرح اپنی جماعت سے الگ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جمعرات کو ہمایوں اختر خان اور پاکستان ایئر لائنز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے غلام سرور خان بھی تحریک انصاف سے الگ ہو گئے ہیں۔ عمران خان خوشامدیوں میں گھرے رہے اور عطاءاللہ خان عیسی خیلوی کے تعریفی ترانے سن سن کر خوش ہوتے رہتے تھے۔ آج حالات بتا رہے ہیں کہ عمران خان غلطی پر تھے اور نہ تو وہ نیا پاکستان بنا سکے، نہ مافیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو سکے، نہ پاکستان کی شان بڑھا سکے، نہ اچھے دن آئے۔ آج ہر طرف مایوسی چھائی ہے۔ زندگی گذارنا مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں بلاول بھٹو زرداری نے اچھے دنوں کا خواب دکھایا ہے اللہ کرے وہ کامیاب ہوں لیکن اس قوم نے اتنے دکھ جھیلے ہیں اتنے خواب بکھرے ہیں، ایسے ایسے نعروں پر زندگی گذاری ہے کہ ہر نعرہ ہر خواب بس ایک دھوکہ ہی لگتا ہے۔ اچھے دن آئیں ضرور آئیں ہم سب چاہتے ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ بلاول بھٹو کی جماعت وفاق میں حکومت بنائے اور ملک میں لوڈ شیڈنگ ہی جان نہ چھوڑے، بدامنی ہو اور زندگی سستی ہوتی چلی جائے، عام آدمی کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر ہمیں شاعر انقلاب شاعر عوام حبیب جالب یاد آئیں اور سب یہ کہنے لگیں
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقہءزنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاو¿ں ننگے ہیں بینظروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال 
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے
یہ ماضی ہے اس ماضی کے بعد اب پھر اچھے دنوں کا خواب دکھایا جا رہا ہے۔ چوبیس کروڑ سے زائد لوگوں کا ملک ہے اور دو وقت کی روٹی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اچھے دنوں اور نئے پاکستان کے نام پر عمران خان کا ساتھ دینے والے اب معاشی ترقی کے وعدے پر مسلم لیگ نون اور اچھے دنوں کی آس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پیچھے چلیں گے۔ جانے یہ سفر کب تمام ہو گا، جانے کب خوابوں کو تعبیر ملے گی جانے کب زندگی کی اہمیت میں اضافہ ہو گا ۔ بلاول بھٹو زرداری اچھے دنوں کی بات تو کر رہے ہیں لیکن دہائیوں سے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وہاں آج تک اچھے دن کیوں نہیں آ سکے، نہ صحت ہے، نہ تعلیم ہے، نہ سفری سہولیات ہیں، نہ بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہر طرف کچرا ہے۔ یہاں تو بلاول بھٹو زرداری کی جماعت کچھ کر سکتی تھی اگر وہ یہاں بھی ناکام ہیں تو اچانک اچھے دن کیسے آئیں گے۔ کیا ابھی عملی اقدامات کا وقت نہیں آیا، کیا دو ہزار تیئیس بھی پاکستان کے شہریوں کو دو وقت کی روٹی کے پیچھے لگا کر اور چند ہزار کی ملازمت پر ٹرخایا جاتا رہے گا ۔ یاد رکھیں اچھے دنوں کے خواب جب بکھرتے ہیں تو محض چودہ سال کا بچہ اچھے دنوں کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہوئے سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے لوگ نہیں ڈوبے وہ ہمارا نظام ڈوبا ہے، سیاست دانوں کے جھوٹے نعرے اور وعدے ڈوبے ہیں۔ کاش کوئی انہیں بتائے کہ اپنے دنوں کو اچھا کرنے کی فکر سے باہر نکلیں، اپنی مراعات کے لالچ سے باہر نکلیں اور وسائل سے محروم افراد کے لیے بھی کچھ کر لیں۔ ووٹر کے اچھے دن تو جانے کب آئیں گے لیکن چیئرمین سینیٹ کے اچھے دن کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ان کے اچھے دن برقرار رکھنے کے لیے سینیٹرز نے بغیر پڑھے مراعات کے بل پر دستخط کئے یہ سیاسی جماعتوں کی حالت ہے۔
ایک طرف اچھے دنوان کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ کراچی کے بیشتر علاقوں میں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوام مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں اور آئے روز پانی اور بجلی کی عدم دستیابی پر احتجاج بھی ہوتا ہے۔ موجودہ حالات سے تنگ اورنگی ٹاو¿ن گیارہ نمبر کا رہائشی اسحاق حسن علاقے میں بجلی اور پانی کی عدم فراہمی سے تنگ آ کر صابری چوک پر موجود ہائی ٹینشن لائن کے ٹاور پر جا بیٹھا ۔ بلاول صاحب ایسے مسائل حل کرنے کا پلان ضرور بتائیں کیونکہ یہ بیانات سے زیادہ اہم ہے۔ 
خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار جاری کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر سولہ جون کو ختم ہونے والے ہفتے میں اکاون کروڑ چوالیس لاکھ ڈالر کم ہوئے۔  16 جون تک زرمبادلہ 8.86 ارب ڈالر رہے۔ سٹیٹ بینک کے ذخائر 48 کروڑ ڈالر کم ہوکر 3.53 ارب ڈالر رہے جبکہ کمرشل بینکوں کے زرمبادلہ ذخائر 3.26 کروڑ ڈالر کم ہو کر 5.32 ارب ڈالر ہیں۔ یہ حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ اچھے دنوں کے لیے پیسوں اور ان پیسوں کو ایمانداری سے خرچ کرنے اور وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے۔
آخر میں سلیم کوثر کا کلام
کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
تم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے
سنتے ہیں ایسا زمانہ بھی یہاں گزرا ہے
حق انہیں ملتا جو حق دار ہوا کرتے تھے
تجھ کو بھی زعم سا رہتا تھا مسیحائی کا
اور ہم بھی ترے بیمار ہوا کرتے تھے
اک نظر روز کہیں جال بچھائے رکھتی
اور ہم روز گرفتار ہوا کرتے تھے
ہم کو معلوم تھا آنا تو نہیں تجھ کو مگر
تیرے آنے کے تو آثار ہوا کرتے تھے
عشق کرتے تھے فقط پاس وفا رکھنے کو
لوگ سچ مچ کے وفادار ہوا کرتے تھے
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے
ہم گل خواب سجاتے تھے دکان دل میں
اور پھر خود ہی خریدار ہوا کرتے تھے
کوچ میر کی جانب نکل آتے تھے سبھی
وہ جو غالب کے طرف دار ہوا کرتے تھے
جن سے آوارگیءشب کا بھرم تھا وہ لوگ
اس بھرے شہر میں دو چار ہوا کرتے تھے
یہ جو زنداں میں تمہیں سائے نظر آتے ہیں
یہ کبھی رونق دربار ہوا کرتے تھے
میں سر دشت وفا اب ہوں اکیلا ورنہ
میرے ہم راہ مرے یار ہوا کرتے تھے
وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیم
یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے

ای پیپر دی نیشن