راولپنڈی میں پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز پر جب حملہ ہوا تو حملہ آور اپنوں کے بھیس میں تھے، پہچان مشکل تھی کہ واقعی دشمن ہیں یا پھر اپنے ہی ساتھی۔ 10 اکتوبر 2009ء جنرل ہیڈ کوارٹرز کے مرکزی گیٹ سے دس دہشت گرد داخل ہوئے، یہ فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔ انھوں نے فوجی ہیڈ کوارٹرز میں جدید ہتھیاروں سے حملہ کیا اور وہاں موجود فوجی اور سول ملازمین کو یرغمال بنانے کی کوشش کی لیکن پاک فوج کے کمانڈوز کے ایک دستے نے یہ کوشش ناکام بنائی اور نو دہشت گردوں کو ہلاک اور ایک کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔ یہ دہشت گردی کے شکار پاکستان میں شدت پسندوں کی ایک خطرناک اور بڑی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی کارروائی تھی جس کا مقاصد یہ پیغام دینا تھا کہ عسکریت پسند پاک فوج کے مرکز تک بھی پہنچ سکتے ہیں لیکن پھر جو ہوا وہ بھی دنیا نے دیکھا۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشنزکیے ان سے ملک بھر میں جاری اس دہشت گردی کی لہر کا خاتمہ ہوا۔
پھر ملکی تاریخ میں ایک اور دن آیا، 9 مئی 2023ئ۔ اس روز ایک بار پھر اسی جنرل ہیڈ کوارٹرز پر حملہ ہوا،اس بار یہ حملہ آور اپنوں کے بھیس میں ہی نہیں بلکہ تھے بھی اپنے، یہ جی ایچ کیو میں گھسے، جلاؤ گھیراؤ کیا، شہداء کی یادگاروں کو توڑا، انھیں فوجی نشانات میں تحریر کلمہ طیبہ اور آیات بھی دکھائی نہ دیں۔ یہ حملہ صرف جی ایچ کیو پر نہیں بلکہ ملک بھر میں فوجی تنصیبات ،شہداء کی یادگاروں اور عسکری اداروں پر ہوا۔ اس سارے عمل کو ایک رہنما کی گرفتاری کا ردعمل قرار دیا گیا لیکن رہنما تو یہاں بڑے بڑے گرفتار ہوئے جیلوں میں ڈالے گئے، غیر قانونی طریقے سے ان کی حکومتوں کے تختے بھی الٹے گئے، پھانسی تک ہوئی اور وہ بھی فوجی آمروں کے ہاتھوں لیکن کبھی کسی سیاسی جماعت کے کارکن یوں فوج کے خلاف حملہ آور نہیں ہوئے، تو اس بار اور اس سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ایسا کیوں کیا؟
اگر یہ غیر ارادی ردعمل تھا تو ایک ساتھ ملک بھر میں صرف عسکری تنصیبات کو ہی نشانہ کیوں بنایا گیا؟ گرفتاری تو نیب نے وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں کی مدد سے کی۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ حملہ بھی ایک منصوبہ بندی اور ایک ذہن سازی کا ہی نتیجہ تھے جس کا مقصد عسکری اداروں کو کمزور کرکے ان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ اس کے لیے کارکنوں کی ذہن سازی کئی ماہ سے کی جاتی رہی، جب ہر ہونی انہونی کا اشارہ فوجی افسران کی جانب کردیا جائے، جب بغیر ثبوت اہم فوجی ذمہ داران پر بار بار الزامات لگا ئے جائیں، جب انھیں اپنا سب سے بڑا اور جانی دشمن بنا کر پیش کیا جائے، خود کو ریڈ لائن قرار دے دیا جائے، کارکنوں کے ذہنوں میں ڈالا جائے کہ ایک لیڈر ہی ہر چیز سے اوپر ہے یہاں تک کہ ملک سے بھی اور اس کے کارکن کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے ہوں تو پھر مزید ذہن سازی کیا رہ جاتی ہے۔
10 اکتوبر کے حملہ آوروں کی بھی ذہن سازی کی گئی تھی اور 9 مئی والوں کی بھی۔ 10 اکتوبر حملے کے دہشت گردوں کو جنت کے خواب دکھا کر مرنا اور مارنا سکھایا گیا تھا، 9 مئی کے حملہ آوروں کو دنیا میں جنت کے خواب دکھائے گئے، انھیں ریاست مدینہ بنانے اور حقیقی آزادی کے نعرے دیے گئے۔ 10 اکتوبر کے دہشت گردوں نے جنت کے خواب میں زندگیاں ختم کردیں اور9 مئی کے حملہ آوروں نے سیاسی نعروں کے پیچھے زندگیاں تباہ کردیں۔ وہ نوجوان جو اپنی قابلیت کی بنا پر کہیں آگے جاسکتے تھے،وہاں پہنچ گئے کہ جہاں سب راستے ہی بند ہیں۔ یہ نوجوان جن کے جھانسے میں آئے پھر انھیں پکارتے رہے، سوشل میڈیا پر دہائیاں دیتے رہے، گرفتار ہوئے تو ان کی والدین معافیاں مانگتے رہے لیکن وہ جن کے کہنے پر انھوں نے یہ سب کیا اس سب سے لاتعلق ہی ہوگئے۔ 10 اکتوبر ایک علانیہ دہشت گرد حملہ تھا جس کے لیے عسکریت پسندوں کو تیار کیا گیا تربیت دی گئی اور جدید ہتھیاروں سے لیس کر کے سامنے لایا گیا لیکن 9 مئی ایک ایسی کارروائی جس میں معصوم نوجوانوں کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، ان کے ذہنوں سے کھیلتے ہوئے انھیں ریاستی اداروں کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ 10 اکتوبر جیسے حملے کسی بھی ملک میں ہوسکتے ہیں لیکن 9 مئی کی طرح اپنے ہی لوگوں کو اپنے ہی اداروں کے خلاف استعمال کرنے کے واقعات وہیں ہوسکتے ہیں جہاں شعور کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیڈر خود کو ریڈ لائن قرار دے دیں اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے انھیں ریاست سے بھی بلند سمجھنے لگیں۔
٭…٭…٭