وزیراعظم محمد شہبازشریف نے پیرس میں عالمی مالیاتی کانفرنس کے موقع پر گزشتہ روز آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے علاوہ سعودی عرب کے وزیراعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان‘ فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں‘ مصر کے صدر السیسی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان سے دو طرفہ تعاون و خیر سگالی کے علاوہ باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ پیرس میں منعقدہ اس انٹرنیشنل کانفرنس کا مقصد ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی معیشتوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لینا اور وسائل رکھنے والے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ان ممالک کی مالی معاونت کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ کانفرنس میں اس معاملہ کو بھی فوکس کیا گیا کہ مقروض ممالک کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط کیسے نرم کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی ڈوبتی معیشتوں کو سہارا دینے کیلئے ترقی یافتہ بڑے ممالک کی مالی معاونت کیلئے اب تک کے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اس حوالے سے عالمی قیادتوں اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے تحت قرض کی دلدل میں ڈوبے ترقی پذیر ممالک کی مدد وقت کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ریلیف مل سکے۔ انہوں نے باور کرایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات نے پہلے سے مسائل کا شکار ترقی پذیر ممالک کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے اس لئے انکی ڈوبتی معیشتوں کو سنبھالنے کیلئے وسائل رکھنے والے ممالک کو نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بجا طور پر اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ بعض ممالک کی حفاظت پر بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں جبکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے مرتب ہونیوالے مضر اثرات سے ہزاروں‘ لاکھوں عوام کو بچانے کیلئے سخت شرائط پر قرض لینا پڑتے ہیں جس سے ان ممالک کی معیشتوں اور عوام پر ناروا بوجھ پڑتا ہے۔ اس تناظر میں اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کیلئے عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ان کیلئے آنیوالا وقت بہت خطرناک ہوگا۔ عالمی قیادتوں سے تبادلہ خیالات کے دوران وزیراعظم شہبازشریف کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ پائیدار امن کیلئے دنیا وسائل کی منصفانہ تقسیم والی پالیسی اپنائے۔
یہ امر واقع ہے کہ جدید ٹیکنالوجی بشمول انٹرنیٹ کی بنیاد پر آج عالمی برادری کیلئے کرۂ ارض ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی اور وسائل سے لیس ممالک جو گنتی کے چند ممالک ہی ہیں‘ اپنی طاقت اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر قدرت کے ودیعت کردہ بیشتر وسائل بھی اپنی دسترس میں لا چکے ہیں اور ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کو عملاً اپنا دستِ نگر بنا چکے ہیں۔ اس سے جہاں وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کا تصور اجاگر ہو رہا ہے اور اس سے انسانی معاشرے کا توازن خراب ہو رہا ہے۔ وہیں انکی بے پناہ طاقت و وسائل سے متعلقہ خطوں اور پورے کرۂ ارض کی تباہی کا اہتمام ہوتا بھی نظر آرہا ہے۔ بالخصوص ایٹمی ٹیکنالوجی نے انسانی ترقی سے زیادہ انسانی زندگیوں کیلئے خطرات پیدا کئے ہیں اور جو ممالک اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر اپنے توسیع پسندانہ عزائم و مقاصد کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔ انکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن ہمہ وقت دائو پر ہی لگا رہتا ہے۔ اس حوالے سے بالخصوص امریکہ اور بھارت جو اس وقت اپنے اپنے مفادات کے تحت ایک دوسرے کے فطری اتحادی اور سٹرٹیجکل شراکت دار بھی بن چکے ہیں‘ اقوام عالم میں فی الحقیقت بدمست ہاتھی کی طرح اپنی زیرنگیں ریاستوں کو پائوں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ نے تو اپنے تئیں یہ حق بھی حاصل کرلیا ہے کہ وہ اپنے مفادات اور سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی بھی ریاست میں نہ صرف مداخلت کر سکتا ہے بلکہ اسکی آزادی و خود مختاری پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے۔ عراق اور افغانستان اسکی زندہ مثالیں ہیں جبکہ پاکستان کو افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دینے کے باوجود وہ اس پر فضائی اور زمینی حملوں کا مرتکب ہوتا رہا۔ اور ایران اور شمالی کوریا کو بھی وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول پر سزاوار ٹھہرا چکا ہے۔ اسکی شہ پر فلسطین اور پاکستان کیخلاف توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل اور بھارت کے ہاتھوں کسی بھی وقت علاقائی اور عالمی امن خاکستر ہو سکتا ہے۔
یہ معاملہ اب مزید کسی تحقیق کا متقاضی نہیں رہا کہ دنیا کی بیشتر ریاستوں میں انسانی تباہی کا باعث بننے والا کووڈ۔19 بھی طاقت و اختیار کی کشمکش میں ڈوبے ترقی یافتہ ممالک کی خانہ ساز سازش تھی جس نے بالخصوص ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کی معیشتوں کا بھٹہ بٹھایا جبکہ گزشتہ سال ہمارے خطے میں سیلاب سے ہونیوالی تباہ کاریاں بھی ترقی یافتہ چند ممالک کے شیطانی تجربات کے باعث رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے چند ماہ قبل منعقد ہونیوالی عالمی ڈونرز کانفرنس میں اسی تناظر میں ترقی یافتہ ممالک کو متوجہ کرتے ہوئے باور کرایا تھا کہ انکے اقدامات کے نتیجہ میں رونما ہونیوالی موسمیاتی تبدیلیاں ہی ترقی پذیر ممالک میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر منتج ہوئی ہیں اس لئے ان متاثرہ ممالک کے نقصانات کے ازالہ اور متاثرین سیلاب کی بحالی و آباد کاری کیلئے انہی ممالک کو آگے بڑھ کر مالی معاونت کرنی چاہیے۔ انکی اپیل پر یقیناً پاکستان کو گلوبل ویلیج میں سے بیشتر ممالک کی مالی معاونت حاصل ہوئی مگر ملک گیر سیلاب سے اس قدر زیادہ نقصانات ہوئے کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو سنبھالنے کیلئے سخت ترین شرائط قبول کرکے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ بھی کرنا پڑا جو ابھی تک پاکستان کے گلے پڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی ہر ناروا شرط قبول کرنے کے باوجود پاکستان کیلئے ابھی تک اس بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کی نوبت نہیں آپائی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے پیرس کی عالمی مالیاتی کانفرنس کے موقع پر کانفرنس میں شریک عالمی قیادتوں اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو بھی ان تلخ حقائق سے آگاہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی قسط ادا نہ کی گئی تو اسکی معیشت کو کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑ سکتا ہے‘ یقیناً یہ مراحل پہلے سے مہنگائی اور دوسرے مسائل کے بوجھ تلے دبے عوام کو عملاً زندہ درگور کرنے والے ہونگے جو ملک کو کبھی سیاسی اور اقتصادی استحکام سے ہمکنار نہیں ہونے دینگے۔
یہ صورتحال امن و ترقی کی داعی عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ اگر عالمی اور علاقائی امن مقصود ہے اور پرامن بقائے باہمی کے اصول کو زندہ رکھنا ہے تو پھر باوسیلہ اور ترقی یافتہ ممالک کو وسائل کی غیرمساوی تقسیم کا چلن روکنا اور دنیا کی تباہ ہونیوالی معیشتوں کی بحالی کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر انسانی معاشرہ کا زوال کوئی بھی روک نہیں پائے گا۔