بجلی کی گھنٹوں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ‘ گرمی اور حبس سے شہری بلبلا اٹھے‘ نظام زندگی مفلوج۔
ملک میں بدترین لوڈشیڈنگ نے گزشتہ کئی سال سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ہر حکومت کی جانب سے یہی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ لوڈشیڈنگ پر جلد قابو پالیا جائیگا مگر آج تک کمبخت ماری یہ لوڈشیڈنگ حکمرانوں کے قابو میں نہ آسکی۔ عوام ہر سال گرمی اور حبس کا دورانیہ بلکتے‘ سسکتے‘ اور نڈھال ہو کر سخت اذیت میں گزار لیتے ہیں‘ مگرحکمرانوں کو ان پر ترس نہیں آتا۔ حبس اور گرمی کے موسم میں طویل لوڈشیڈنگ میں کس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے‘ وزیراعظم شہبازشریف بخوبی جانتے ہیں۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں لاہور میں بجلی کی طویل بندش کیخلاف جاری عوامی مظاہرے میں شامل ہو کر وہ اس وقت کی وفاقی حکومت کیخلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لے چکے ہیں اور مینار پاکستان کے سامنے بیٹھ کر وہ دستی پنکھا جھلنے کا فوٹو شْوٹ بھی کرا چکے ہیں۔ اب تووہ خود وفاق کے چودھری بن چکے ہیں اور سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ انہیں اب نہ احتجاج کی ضرورت ہے نہ کیمپ لگانے کی‘ وہ اپنے صرف ایک حکم پر ہی ملک بھر سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرا سکتے ہیں۔ اس وقت کئی علاقوں میں دو روز سے بجلی غائب ہے‘ بارہا شکایات کے باوجود شنوائی نہیں ہو رہی۔ حکومت مہنگائی کا خاتمہ کرنے میں تو ناکام نظر آرہی ہے‘ کم از کم بجلی کی لوڈشیڈنگ میں ہی کمی کرکے ان غریب عوام کو ریلیف دے دے۔ ورنہ یہ تاثر پختہ ہو کر رہے گا کہ حکومت واقعی غریب مکائوپالیسی پر کاربند ہے۔
٭…٭…٭
قائد اعظم یونیورسٹی میں رنگ پھینکنے‘ ہلہ گلہ کرنے اور میوزک‘ رقص و سرود کے نام پر فنکشن منایا گیا۔اعتراض اٹھانے پر کہا گیا یہ ہندو تہوار تھا۔ ہولی کا تہوار 8 مارچ کو گزر چکا جبکہ یہ ایونٹ 10 جون کو یونیورسٹی میں چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے مخصوص سٹوڈنٹس گروپس کی جانب سے منعقد کیا گیا۔ہولی مخصوص موسم کا تہوار ہے‘ ہندو اسے پھاگن کے مہینے میں جس دن چاند پورا ہوتا ہے‘ (چاند کی چودھویں تاریخ) کو مناتے ہیں جبکہ ہندو اپنا یہ تہوار 8 مارچ کو منا چکے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی میں منائے گئے اس فنکشن کی وائرل ویڈیوز پر بہت سے حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا جس پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک مراسلہ بھی جاری کیا جس میں یونیورسٹیز کو کہا گیا کہ ایسے ایونٹ جن سے معاشرتی تشویش پیدا ہو ان سے گریز کیا جائے۔ ایسے ایونٹس سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ ہماری درسگاہیں تو رقص گاہیں بن چکی ہیں۔کئی نجی کالج اور یونیورسٹیاں ایسی سرگرمیوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں جو ہماری وزارت تعلیم کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ دراصل ایک مخصوص طبقہ کبھی ٹرانس جینڈر کے حقوق تو کبھی خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کراتا ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بھی متاثر ہوتا ہے۔ اقلیتوں کے نام سے درس گاہوں میں ایسے بے ہودہ پروگرام کرنا نہ صرف ہماری تہذیب کے خلاف ہے‘ بلکہ یہ شرپسند عناصر کا ایک مخصوص ایجنڈا نظر آتا ہے۔ دراصل اس لبرل طبقے کو اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر سے کوئی ہمدردی ہے‘ نہ ان کا مقصد ان کی فلاح و بہبودہوتا ہے۔ ان کا اصل مقصد درس گاہوں میں ایسے پروگرام منعقد کرکے فنڈز جمع کرنا ہوتا ہے جسے ہڑپ کیا جاسکے۔ اسی آڑ میں نام نہاد این جی اوز کے مقاصد پورے کئے جاتے ہیں‘ جس کیلئے باقاعدہ کمپین چلائی جاتی ہے۔
پاکستان میں عورت مارچ کی آڑ میں جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ بھی کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہے۔ورنہ اسلام نے عورت کو جو حقوق تفویض کئے ہیں‘ اسکے بعد عورت کو نہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے اور نہ ایسی بے ہودہ سرگرمیوں کا حصہ بننے کی۔ درس گاہوں میں غیرنصابی سرگرمیاں ضرور ہونی چاہئیں‘ مگر اخلاق اور تہذیب اور اپنے ملک کے کلچر کو ضرور پیش نظر رکھا جائے۔ حکومت بالخصوص وزارت تعلیم کو درس گاہوں میں ایسی سرگرمیوں کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔ اقلیتوں یا کسی مخصوص طبقے کے حقوق کی آڑ میں ایسی سرگرمیوں کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے جس سے پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں متاثر ہو۔
٭…٭…٭
جنگل کے بادشاہ شیر کی گھاس کھاتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل۔
شیر کے گھاس کھانے سے ہمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو یاد آگئے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے‘ مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہمیں تو ایٹم بم کی اس لئے ضرورت تھی کہ ہمارا پالا ایک مکار اور عیار دشمن سے پڑا ہے‘ جس سے نمٹنے کیلئے ہمیں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر شیر کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ گھاس کھانے پر مجبور ہو گیا۔لگتا ہے کہ اب جنگلوں کے حالات بھی ہمارے ملک کے حالات سے کچھ مختلف نہیں رہے‘ جہاں گوشت کھانے والا شیر بھی گھاس کھانے پر مجبور ہو گیا۔ مگر یہ واقعہ ہمارے ملک کا نہیں‘ کیونکہ ہمارے ہاں تو شیرکْھلے عام پائے ہی نہیں جاتے‘ اگر پائے جاتے ہیں تو صرف چڑیا گھروں میں۔ گھاس کھانے والا شیر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے چڑیا گھر کا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس میں حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ شیر کبھی کبھار گھاس پھوس کھا لیا کرتے ہیں یہ گوشت کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اب پتہ نہیں کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ اپنی غربت چھپا رہی ہے کہ وہ شیر کو دو وقت گوشت نہیں کھلا سکتی یا واقعی اس بات میں کوئی صداقت ہے۔ اگر یہ واقعہ ہمارے ہاں ہوتا تو یقیناً اس کا مورد الزام حکمرانوں کو ٹھہرایا جاتا ‘ جنہوں نے بدترین مہنگائی مسلط کرکے غریب سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ جس تیزی سے مہنگائی بے قابو ہو رہی ہے‘ گوشت تو غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے‘ اس لئے وہ اب سبزیوں پر گزارہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ کوئی بعید نہیں کہ مہنگائی بے قابو ہو کر غریبوں کو بھی گھاس کھانے پر مجبور کردے‘ جس کی نوبت جلد یا بدیر آنیوالی ہے۔ مگر حکمران اس وقت بھی مہنگائی کے خاتمے کے دعوئوں کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔
٭…٭…٭
سائنس دانوں نے زمین کی جسامت کے برابر سیارہ دریافت کرلیا۔
دنیا کے سائنس دان دن رات تحقیقات میں مگن رہتے ہیں اور کائنات میں چھپے راز و نیاز کا کھوج لگاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کائنات میں پھیلے بڑے بڑے سیارے‘ کہکشائیں اور بلیک ہولز تلاش کرلئے ہیں جو انکے بقول کوئی سیارہ دو ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے تو کوئی چار ہزار۔
اب انہوں نے زمین کی جسامت کے برابر سیارہ دریافت کرلیا ہے۔ ہمارے ہاں سیارے اور کہکشائیں تو درکنار‘ دوبار عیدین کا چاند تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ اگر کوئی تلاش کر بھی لے تو دوسرا اس چاند کو مسترد کر دیتا ہے۔ اس طرح ہر سال قوم کو دو دو یا تین تین عیدیں منانے کا سواد آجاتا ہے۔ جنہیں موٹی عینکیں لگا کر زمین پر گری سوئی نظر نہیں آتی‘ انہیں ہزاروں میل فاصلے پر موجود باریک چاند دیکھنے کا کام سونپا ہوا ہے۔ دنیا جدید دور میں داخل ہو چکی ہے‘ ہر چیز انسان کی مٹھی میں آچکی ہے‘ مگر حیرت ہے کہ ا س دور میں بھی عید کے چاند پر قابو نہیں پایا جا سکا۔