اے اللہ میں حاضر ہوں

 گوشہ تصوف…  ڈاکٹرپیرظہیرعباس قادری الرفاعی
drzaheerabbas1984@gmail.com

عشرہ ذوالحجہ کا سب سے بڑا فائدہ وہ تبدیلی ہے جسے اہل تصوف و اہل عشق تزکیہ نفس سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس روحانی کورس کے بعد مسلمان احساس اور مروت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ جھوٹ اور غیبت سیمت تمام برائیوں سے خود کو دور کرلیتا ہے یہی وہ واحد  مہینہ ہے جسکا اثر پورے سال ہماری زندگی پر غالب رہتا ہے ،گویا ذوالحجہ کے بعد زندگی توازن کا مظہر بن جاتی ہے۔ لوگ معمولات زندگی کو افراط وتفریط سے پاک صاف کر لیتے ہیں ایسے ہی دل اور دماغ ہوتے ہیں جہاں حب رسولؐ اور اطاعت اللہ کے چراغ روشن رکھتے ہیں اور جو لوگ حج  اور قربانی کے بعد زندگی میں دوبارہ جھوٹ ،منافقت ،دھوکہ اور غیبت کے دروازے کھول لیتے ہیں وہ  ماہ مقدس کی رحمت اور قرآن کے پیغام کی برکتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر صورت ان خرافات سے خود کو بجانا چاہیے۔ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے، جھوٹ بولنا یا جھوٹا عمل  پوری زندگی کو خرافات زدہ کردیتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں امام بخاریؒ کا وہ سفر روشن حوالے کے طور پر محفوظ ہے جب انہیں ایک حدیث کی سند کے لیے طویل مسافت طے کرنا پڑی ۔  امام صاحب ؒمنزل  میں مذکورہ شخص کے پاس پہنچنے تو انہیں بچے کے ساتھ مشغول پایا بچہ کوئی چیز پانے کی ضد کررہا تھا ۔ والد نے بچے کو فلاں چیز دلانے کا وعدہ کیا حالانکہ اس موسم میں مذکورہ شے کا ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ گویا بچے کو خوش کرنے کے لیے اسے جھوٹی تسلی دی گئی۔امام بخاری ؒ سوال کئے بغیر واپس لوٹ آئے۔ استفسار پر جواب دیا کہ جو شخص معمولات زندگی میں جھوٹی بات کا سہارہ لے اس کی سند حدیث قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ہمیں چاہیے ہم اپنی انفرادی واجتماعی زندگیوں سے جھوٹ کے کانٹوں کو باہر نکال دیں۔ جھوٹ بولنے والے کے لیے دین اسلام میں سخت وعید ہے اللہ پاک نے صرف جھوٹے پر ہی لعنت فرمائی۔ جھوٹ بولنے  والے کی گواہی بھی قبول نہیں ہوتی۔ اب کچھ باتیں حج  کی حکمتوں  اور مصلحتوں کی بابت ہوجائیں…دنیا میں تقریباً ہر ملت کا ایک اجتماع ہوتا ہے جس میں اُس اُمت کے لوگ جمع ہو کر کچھ رسوم ادا کرتے ہیں۔ حج ایک رسم ہی نہیں عظیم اُمت کا عظیم اجتماع ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی مرکز پر جمع ہو کر نہ صرف دنیوی بلکہ اُخروی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ "ہم نے اس گھر (بیت اللہ) کو لوگوں کے لئے مرجع اور اُن کے لئے امن کی جگہ بنایا ہے "۔ بیت اللہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اس کا دیدار، زیارت ، طواف اور تعظیم کرنا گویا اللہ کی تعظیم کرنے کے برابر ہے۔ نبی اکرم ؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ "اپنے مشاعر پر قائم رہو کیونکہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی وراثت سے تم کو یہ ورثہ ملا ہے"۔ حج میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اطاعتِ الہیٰ کا اظہار ہوتا ہے۔ کیونکہ مناسکِ حج اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ہی ادا کئے جاتے ہیں۔ اعمال اور افعالِ حج کی تکمیل سے ایک حاجی موحد، حق کا تابع اور شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔ وہاں کے درودیواریا وادیوں وغیرہ کی حاضری صرف مقدس مقامات کی حاضری ہی نہیں ہوتی بلکہ خالق و مالک کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ جس میں ایک عاجز بندہ بندگی کا حق ادا کرنے کے لئے دیوانہ وار لبیک اللھم لبیک کا ورد کرتے ہوئے حاضر ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی حج ہوتا تھا مگر وہ اُن احکامات کے بالکل اُلٹ تھا  اہلِ مکہ خود کو اللہ کا ہمسایہ سمجھ کر اپنی مرضی سے جو چاہتے کرتے تھے۔ تلبیہ میں شرکیہ الفاظ کی آمیزش کے علاوہ بُتوں کی پرستش بھی حج کے مناسک میں شامل کر رکھی تھی۔ شریعتِ محمدیہ میں اُن تمام اُمور فاسدہ کی اصلاح کی گئی جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں میں عام تھی۔ شعائر اللہ کی عظمت و بزرگی کو قائم رکھا گیا۔ اس عظیم اجتماع میں تمام دنیا سے آئے ہوئے فرزندانِ توحید کو ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ اُن کے باہمی تعارف، اتحاد و اتفاق اور تعلقات میں وسعت کے لئے حج  بہترین ذریعہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے اس عظیم اجتماع میں مشرق و مغرب سے آ کر مسلمان باہمی اُلفت، محبت اور تعارف حاصل کرتے ہیں۔گویا حج کا اجتماع ایک ایسی کُل عالمی کانفرنس ہے جس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں مل سکتی۔ زمانہ حج میں اسلامی عسکری زندگی کا پہلو ہی پایا نہیں جاتا بلکہ غریب و امیر کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور مساوات پائی جاتی ہے۔ سب کا لباس احرام کی شکل میں ایک جیسا ہوتا ہے اور ترانہ لبیک اللھم لبیک بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ہر ایک کی زبان پر یہی کلمہ ہوتا ہے۔ حاضر ہو ں یا اللہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں اور بادشاہی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ مکہ مکرمہ میں اللہ کا گھر ہے اور حضور اقدسؐ کا جائے مولد ہے۔مدینہ منورہ ہجرت کا گھر ہے اور وہاں حضورؐ کی مسجد نبویؐ اور روضہ اطہر ؐہے۔حج کرنے والوں کو ان دونوںمقدس و متبرک شہروں کی حاضری نصیب ہوتی ہے۔وہاں کی خریداری سے اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ کی ایک طرح سے مدد اور نصرت ہو جاتی ہے۔حج اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کا ایک امتحان ہوتا ہے۔ مال و دولت اور صحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ ان دونوں نعمتوں کو دینے والے کی رضا کے لئے استعمال میں لانا یعنی سفرِ حج اختیار کرنا ، گھریلو آرام سکون و آسائشیں چھوڑ کر حرمین شریفین کی حاضری کے لئے نہ مال کی اور نہ جان کی پرواہ کرنا ہی وہ امتحان ہے جو فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد بندگانِ خدا کو سرخروکرتا ہے۔ صاحبِ استطاعت مومنوں میں ایک تو وہ ہیں جو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیوانہ وار اللہ کے گھر کی حاضری کے لئے بیتاب ہوتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے پوری استطاعت ہونے کے باوجود بھی طرح طرح کے حیلے بہانوں سے ٹالتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد ایک تو فریضہ حج کی سعادت اور اُس کے فوائد سے محروم رہتے ہیں اور دوسری طرف وَمَنْ کفرا یعنی انکار کرنے والوں کے زُمرے میں آ جاتے ہیں۔احرام کی مشابہت کفن سے ہوتی ہے اور عرفات میں لاکھوں انسانوں کا اجتماع روزِ محشر کی یاد دلاتا ہے جس کی طرف جانے کے لئے تیاری کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔دنیا کے کونہ کونہ سے آئے ہوئے فرزندانِ توحید کی عادات، اخلاق، رہن سہن اور اُن کے مسائل کا ایک دوسرے کو علم ہوتا ہے۔ حج  ایسی عبادتِ الہیہ ہے جس کی حکمتیں اور مصلحتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اُن کو کاغذ پر لانا نہایت ہی مشکل کام ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام انسان کی اُن تک رسائی ہی ممکن نہیں ہے۔ جوں جوں غور و فکر کیا جائے زیادہ سے زیادہ فوائد اور حکمتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ اصل اور بنیادی حکمت تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کر کے اس کے حکم کی تعمیل میں سر جھکا دینا ہے جس کا نتیجہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنا ہے۔ حج کے بارے میں حکم یہ ہے کہ کرنے سے ثواب اور ترک کرنے سے عذاب ملتا ہے اور اس کی فرضیت سے انکار کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ ہر صاحبِ استطاعت مرد و زن پر زندگی میں صرف ایک دفعہ حج کرنا فرض ہے۔ اور بار بار کرنے سے باطنی زندگی میں نکھار آتا ہے۔عبادات کا مقصد اظہارِ عبودیت اور شکر نعمت خداوندی ہوتا ہے۔اظہارِ عبودیت کا مطلب اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر حرکت سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے۔ زکوٰۃ مالی اور نماز روزہ بدنی عبادتیں ہیں جبکہ حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں مالی و بدنی دونوں عبادتیں پائی جاتی ہیں۔واجباتِ حج کے لئے کثیر رقم مختص کرنے کے علاوہ گھر بار ، عزیز و اقارب، مال و دولت او ر کاروبار چھوڑ کر سفری مشکلات برداشت کرنا، دنیاوی زیب و زینت کا لباس ترک کر کے ایک تہبند اور ایک چادر اوڑھ کر خود کو خالقِ و مالک کے دربار میں پیش کرنا تا کہ اس کی رحمت کا حقدار بن جائے۔ وہ اظہارِ عبودیت کا اعلیٰ طریقہ ہے جس پر سرکارِ دو جہاں جناب محمد رسول اللہؐ کی تصدیق کی مہر لگی ہوئی ہے۔سورئہ الحج آیت 26 تا 28میں حج کے حکم کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ترجمہ "آپ لوگوں میں حج کے فرض ہونے کا اعلان کر دیں اس اعلان سے لوگ آپ کے پاس (یعنی آپ کی اس عمارت کے پاس حج کے لئے) پیدل چل کر بھی آئیں گے۔اور ایسی اُونٹنیوں پر سوار ہو کر بھی آئیں گے جو دور دراز راستوں سے چل کر آئی ہوں۔اور سفر کی وجہ سے دُبلی ہو گئی ہوں تا کہ یہ آنے والے اپنے منافع حاصل کریں"۔ منافع سے مراد دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ کے ہیں۔ آخرت کے منافع سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا اور دنیوی منافع سے مراد تجارت وغیرہ کے ہیں۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہ " جس نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اوررفث یعنی جماع اور اس کے تذکرے اور لغو کام اور فسق یعنی ہر قسم کے گناہ کے کاموں سے محفوظ رہا تو وہ حج سے ایسا پاک ہو کر واپس آتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن پاک تھا۔ اُس کے حج سے پہلے کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں البتہ حقوق العباد وغیرہ کی ادائیگی ساقط نہیں ہوتی ۔اور حج کے بعد یا پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے"۔ایک روایت میں ہے کہ "حج مبرور دنیا و مافہیا سے بہتر ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے ـ"۔ حج مبرور وہ ہوتا ہے جس میں گناہ ہو نہ ریا کاری ہو اور جس میں سخاوت اور حسن اخلاق ہو۔ بعض کے نزدیک حج مبرور وہ ہے جس کے بعد گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ امام حسن بصری ؒ کے نزدیک حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس کے بعدد نیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ یومِ عرفہ کو شیطان غصہ میں اس لئے ہوتا ہے کہ اُس دن اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ا ور بندوں کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا حج کرنا اس طرح ہے جیسے اُنہوں نے جہاد میں شرکت کی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ "بوڑھے آدمی، بچے اور عورت کا جہاد حج و عمرہ کرنا ہے۔ حاجی اللہ کے مہمان یعنی ضیوف الرحمن ہوتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ اُن کی دعائیں اس لئے قبول ہوتی ہیں کہ وہ اللہ کے وفد ہوتے ہیں۔وہ سفرِ حج میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ اُن کو اُس کا دگنا عطا فرماتا ہے۔ حدیث میں ہے "جو شخص حج یا عمرہ کے لئے نکلے اور راستہ میں فوت ہو جائے تو اُس کی عدالتِ قیامت میں پیشی ہو گی اور نہ حساب کتاب ہو گا۔ اُس کو کہہ دیا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جائو۔حضرت ابن مسعود جابرؓ سے روایت ہے کہ "پے درپے حج و عمرہ کرو کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اسطرح دور کر دیتے ہیں جیسا کہ آگ کی بھٹی، لوہے ، سونے اور چاندی کے میل کو دور کرتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن