حافظ محمد عمران
نجم سیٹھی چلے گئے، ذکا اشرف آ رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کا تماشہ سا بنا ہوا ہے۔ اتنی جلدی تو جماعت نہیں بدلی جاتی جتنی جلدی ہمارے چیئرمین بدلے جا رہے ہیں۔ دوسری جماعت سے تیسری جماعت میں جانے کے لیے بھی ایک سال چاہیے ہوتا ہے لیکن یہاں تو 21 دسمبر 2022ء کو چیئرمین کرکٹ بورڈ کوئی اور تھا،22 دسمبر کو کوئی اور تھا اور اب 27 جون کو چیئرمین کوئی اور ہو گا۔ ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ پاکستان دُنیا کی نمبر ون ٹیم بنے ، ہم یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان سُپرلیگ دنیا کی سب سے بڑی ٹی ٹونٹی لیگ بن جائے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک میں ہر سطح پر کھیل کی بہترین سہولیات میسر ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کرنے کے لیے کیا ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہے ، کوئی حکمت عملی ہے، کوئی ترتیب ہے ، کوئی تسلسل ہے ، کوئی سوچ ہے۔ ایک طرف جب ہم بہتر کارکردگی کے لیے ٹیم میں تسلسل کی آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی کھلاڑی کو صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے لیے مناسب موقع ضرور ملنا چاہیے، کپتان کو کپتانی سیکھنے کے لیے وقت ملنا چاہیے، کوچ کو اپنی ٹیم بنانے کے لیے وقت ملنا چاہیے تو پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو مناسب وقت کیوں نہیں ملتا۔ 2012-13ء سے لے کر 2023ء تک بالخصوص پاکستان کرکٹ بورڈ میں ہونے والی ہر تبدیلی کے پیچھے سیاسی سوچ اور سیاسی وفاداری ہی نظر آتی ہے اور یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کرکٹ کو تسلسل کی اشد ضرورت تھی حکومت میں آنے والی ہر سیاسی جماعت یہ خواہش رکھتی ہے کہ ہر جگہ پر اُس کے اپنے بندے ہوں۔ قطع نظر اس کے کہ کون کیا پرفارم کر رہا ہے کون اہل ہے، کون اہل نہیں ہے، ملک کی ضرورت کیا ہے اور کرکٹ کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ یہ تمام باتیں سیاسی مفادات یا سیاسی وابستگیوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
گزشتہ ایک دہائی میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کو سیاسی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آج پاکستان ایشیا کپ کے ہائبرڈ ماڈل کی میزبانی کی طرف بڑھ رہا تھا ، نجم سیٹھی ایشیا کپ کی میزبانی، رواں برس بھارت میں کھیلے جانے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں شرکت اور وینیوز کے حوالے سے آئی سی سی حکام سے بات چیت کر رہے تھے وہ آئی سی سی کے فنانشل ماڈل کے حوالے سے بھی اپنا نقطۂ نظر بیان کر رہے تھے کہ اچانک پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ خیال آیا کہ پی سی بی تو اُن کی وزارت کے ماتحت ہے لہٰذا یہاں پر وہی شخص کام کر سکتا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہے یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا پسندیدہ ہے جب یہ سوچ آتی ہے تو پھر قومی مفاد بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
ان حالات میں جب ہم مسلسل چیئرمین بدلتے رہیں گے تو دنیا میں پاکستان کا کیا پیغام جائے گا، دنیا کیسے ہمیں سنجیدہ لے گی اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوں گے۔ کون جانتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے، نیا منتخب وزیر اعظم کس جماعت سے ہو گا اور اگر وہ پیپلز پارٹی سے نہیں ہوتا تو پھر ممکنہ طور پر 27 جون کو چیئرمین کرکٹ بورڈ بننے والے ذکا اشرف کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر دور میں نجم سیٹھی کی تعیناتی کے پیچھے بھی مسلم لیگ (ن) اور بالخصوص میاں نواز شریف نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نجم سیٹھی نے پاکستان سُپرلیگ کا آغاز اور اسے کامیاب بنانے کے ساتھ ساتھ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے بہت اچھا کام کیا ہے۔ لیکن ہر دور میں اُن کا آنا اور کرکٹ بورڈ سے رخصتی کے پیچھے سیاسی تعلق ہی سب سے اہم ہے۔ اسے کرسی تماشہ کہا جائے یا پُتلی تماشہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ کرکٹ بورڈ میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کرکٹ کا تماشہ ضرور بنتا ہے۔ ذکاء اشرف کو دیکھیں انہوں نے ایشیا کپ کے ہائبرڈ ماڈل پر تنقید کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایشین کرکٹ کونسل اس کی منظوری دے چکی ہے ، پاکستان نے چار میچز میزبانی کرنی ہے اور باقی میچز سری لنکا میں کھیلے جائیں گے۔ ان حالات میں ایسے بیانات سے بدمزگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آج ذکاء اشرف ایشیا کپ کے میچز کو پاکستان کا حق قرار دیتے ہیں لیکن اپنے پہلے دور میں جب وہ پاکستان کی ٹیم کو بھارت لے گئے اُس وقت وہ یہ بھول گئے کہ بھارت نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا اور وہ میچز پاکستان کا حق تھے لیکن ذکاء اشرف اس حق سے دستبردار ہوئے اور اب وہ اس ہائبرڈ ماڈل کو صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نجم سیٹھی نے کیا تھا۔
ہمیں دنیا میں آگے بڑھنے اور مقابلہ کرنے کے لیے اپنی سوچ کو وسعت دینا ہو گی، ہمیں تیرہ بندہ میرا بندہ ، اُس کا بندہ ، اپنا بندہ ، فلاں کا بندہ کے کھیلوں سے باہر نکلنا ہو گا۔ ہم کہتے ضرور ہیں کہ کھیل میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن ہم اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیاں کرتے ہوئے سب سے پہلے سیاسی تعلق کو ضرور دیکھتے ہیں اور اُسی کو نبھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور قومی ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے بھی نجم سیٹھی کو گھر جانے پر مجبور کیا تو اُس کے پیچھے بھی سیاسی مخالفت ہی تھی۔ آج بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے جانے یہ پُتلی تماشہ کب ختم ہو گا اور کب میرے ملک میں، آپ کے ملک میں ملکی مفاد کو سب سے مقدم سمجھا جائے گا۔