فاٹا آپریشن بند کرو، اپوزیشن: سلامتی کمیٹی ان کیمرہ اجلاس بلائیں گے: حکومت

اسلام آباد (وقائع نگار )قومی اسمبلی نے اقلیتوں کے تحفظ کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی۔ حکومت کاعزم استحکام آپریشن  پر ایوان  مین  سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلانے کا اعلان۔ وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قرارداد پیش کی جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا شور شرابہ، وزیر کو ہیڈفون لگاکر تقریر مکمل کرنی پڑی۔ جبکہ اپوزیشن رہنماؤں نے  شور شرابہ کرتے ہوئے ’فاٹا آپریشن بند کرو‘ کے نعرے لگا ئے، سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایوان سے واک آوٹ کیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے اراکین نے بھی احتجاج اور واک آوٹ میں ان کا ساتھ دیا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے شور شرابے کے درمیان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف بڑھتے حملے ہمارے لیے باعث شرمندگی ہیں۔ یہ تو بلیک میلنگ ہورہی ہے، یہ ہمیں گالیاں نکال رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں نے رہنماؤں نے ہمیں امن چاہیے کہ نعرے بھی لگائے۔ اس دوران وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ  پاکستان میں کوئی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں،  اقلیتوں کے قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے بتایا کہ کل عزم استحکام کی جو ایپکس کمیٹی نے اجازت دی تو سب کو پتا کہ آرمی پبلک کے سانحے کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی اس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی۔ کل کی میٹنگ میں وزیر اعلی خیبرپختونخوا موجود تھے، ان کے سامنے سب بات ہوئی،آج یہ دہشتگردوں کے ساتھ کھڑے ہیں احتجاج کر کے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ احتجاج کر کے یہ پاک فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، شہدا کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، یہ آج بھی 9 مئی پر کھڑے ہیں، یہ مفادات کے لیے پینترے بدلتے ہیں، ترلے کرتے ہیں، پیر پڑتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں۔یہ صرف اپنی سیاست کے ساتھ ہیں۔ ، یہ ملک اور آئین کے ساتھ نہیں، جو ان کا لیڈر اندر ہے وہ بھی پینترے بدلتا تھا، کبھی وہ باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن دیتا تھا تو کبھی ان کو گالیاں نکالتا تھا، ان کی جماعت کے لوگ ہم سے تکٹ مانگتے تھے۔بعد ازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کا جو مسئلہ ہے اس کو ہم ایوان میں لے کر آئے ہیں، ہم نے ڈرافٹ میں یہ لکھا ہے کہ ہم تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام لوگوں بالخصوص اقلیتوں کی جانوں کی حفاظت ہونی چاہیے، ان واقعات کی تفتیش ہونی چاہیے اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے تو اس میں غلط کیا ہے؟۔ ریاست کی رٹ قائم ہونی چاہیے، کل ایپکس کمیٹی میں آپ کے وزیر اعلی بھی موجود تھے تو انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کابینہ اور ایوان میں آئے گا ہم نیشنل سیکیورٹی ایوان میں بلائیں گے، ہمارا وزیر اعظم یہاں بیٹھے گا آپ کے وزیر اعظم کی طرح ہم باہر نہیں بیٹھیں گے، ہم کوئی چیز چھپ کر نہیں کرتے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔اس کے بعد پی ٹی آئی کے شہر یار آفریدی نے کہا کہ وزیر دفاع نے بہت بڑا الزام لگایا ہے، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ، ان کا پی ٹی آئی سے کوئی مقابلہ نہیں،میری ماں ریحانہ ڈار کو سلام ،ایوان کی کاروائی ابھی جاری تھی ڈپٹی سپیکر نے اجلاس آج تک ملتوی کردیا.۔ؓؓبعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر ہاؤس کا کسٹوڈین ہوتا ہے، آپ دباؤ میں ہیں، آپ اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہیں، بس بہت ہوگیا۔ کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالا نہیں۔ یہ ایوان جیسا بھی ہے ایوان ہے۔جو ہواتفاق رائے کے ساتھ ہو، حکومت نے کسی بھی نقطے پر بھی ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا، لیکن اس مرتبہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قیادت پہلے ان کمیرہ بریفنگ دے، پھر کوئی کارروائی ہو۔، ایک بندے کے تشدد پر قرارداد پاس ہورہی ہے تو ہم پر بھی تو روز تشدد ہوتا ہے اس لیے میں نے ان کو کہا کہ ابھی اس قرارداد کو روک لیں، سب کو آجانے دیں۔ ہم پاکستان دوست ہیں، ہمارا پوائنٹ آف آرڈر ابھی بھی ملٹری آپریشن پر ہے، اس پر ہمیں توجہ دلانی ہے۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا بجٹ تقریر کے دوران کوئی قرارداد اسمبلی میں نہیں پیش کی جاسکتی، یہاں تو اسسٹنٹ اور ڈپٹی حزب اختلاف بھی موجود ہیں۔بعد ازاں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ میں یہاں احتجاج کر رہا ہوں، وزیر دفاع تو ہے ہی اینٹی پاکستان اور اینٹی فوج۔بعد ازاں وزیر دفاع نے جواب دیا کل شہریار آفریدی صاحب نے ان کو دو نمبر لوگ کہا ہے، یہ سارے ان کے مطابق کومپرومائزڈ ہیں، انہوں نے ان کا نام لیا ہے، انہوں نے اسد قیصر، عمر ایوب، گوہر خان سب کا نام لیا ہے اور کہا کہ یہ دو نمبر لوگ ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ اپوزیشن تنقید برائے تنقید کرتی ہے لیکن کسی نے شیڈو بجٹ پیش کرنے کی زحمت نہیں کی، ان کے پاس قابلیت کا فقدان تو تھا ہی لیکن نیت کا بھی فقدان ہے، یہ کچھ کرنا نہیں چاہتے، یہ صرف اور صرف انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان غیر مستحکم ہو، ہمیں تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے ملک کو محفوظ کرنا ہے، سڑکوں پر انصاف کی فراہمی کی روایت کو ختم کرنا ہوگا، اقلیتوں کے تحفظ کے لئے ایک نظام وضع کیا جانا چاہئے، بتایا جائے کہ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بحث اس ملک میں کس نے شروع کی تھی؟ جب کسی کو طالبان کی گولی لگتی ہے تو اس پر گڈ یا بیڈ طالبان نہیں لکھا ہوتا، کل آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی، یہ معاملہ کابینہ میں بھی آئے گا اور اس ایوان میں بھی۔ ہم عزم استحکام پر عمل پیرا ہوں گے اور پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے۔ امر افسوسناک ہے کہ تنقید برائے تنقید کی جاتی ہے لیکن کسی نے شیڈو بجٹ پیش کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس بجٹ پر انہیں کیا اعتراض ہے، کیا نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ کے اندر لانے پر اعتراض ہے؟ کیا تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کرنے پر اعتراض ہے؟ کم از کم اجرت بڑھانے پر اعتراض ہے یا انڈسٹری کی بجلی سستی کرنے پر اعتراض ہے؟  کیا آج انہیں سٹاک ایکسچینج کے نئے ریکارڈ قائم کرنے پر اعتراض ہے؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سنی اتحاد کے فاضل رکن قومی اسمبلی جب مسلم لیگ (ن) میں تھے تو وہ نواز شریف صاحب کو ’’آقا‘‘ اور ’’مائی لیڈر‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔  جب مریم نواز شریف اور فریال تالپور کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو وہ بھی بھاگ سکتے تھے، فواد چوہدری صاحب کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو وہ ایسا بھاگے کہ رکنے کا نام نہیں لیا۔ ہمیں سڑکوں پر انصاف کرنے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ کل عزم استحکام کمپین کی منظوری دی گئی ہے، اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طالبان کو واپس لے کر آئے اور سوات میں بسایا، خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع آج نوگو ایریاز بن چکے ہیں،  وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب کسی پاکستانی فوجی، سپاہی، پولیس والے، رینجرز یا سویلین کے سینے پر گولی لگتی ہے تو اس گولی پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ گڈ طالبان کی گولی ہے یا بیڈ طالبان کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کدھر جانا چاہئے۔  اپوزیشن شیڈو بجٹ لائے، ہماری اصلاح کرے، میری ایوان سے گذارش ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمیں متحد ہونا ہے، دوست ممالک کو تو چھوڑ دیں، نثار جٹ ہمارے پرانے دوست ہیں، کاش آپ کی پنجاب حکومت نے پنجاب کڈنی لیور انسٹیٹوٹ بند نہ کیا ہوتا، آج راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پورے خیبر پختونخوا سے مریض آتے ہیں۔اپوزیشن گالم گلوچ اور اپنے لیڈر کی خوش آمد کرنے کی بجائے ایسی تجاویز لے کر آئے جس پر ہم عمل درآمد کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن