اگر ہم پاکستان کی جمہوری تاریخ ، آج کل رونما ہونے والے سیاسی و جمہوری واقعات کے تسلسل کا عمیق نظری سے جائزہ لیں تو ہم پر عیاں ہوگا کہ جمہوریت ہمیں راس نہیں کیونکہ حکمران طبقہ اور اشرافیہ خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور ’’اول خویش بعد درویش ‘‘ پر عمل کرتے ہیں تبھی خویش سے کچھ نہیں بچتا اور درویش بس منہ تکتا رہ جاتا ہے لامحالہ دو تین برس بعد ہی عوام کی قوت برداشت ختم ہوجاتی ہے اور حالا ت اس قدر خراب ہوجاتے ہیں کہ کردار بدل جاتے ہیں۔ کرسیوں سے اترنے والے جو کہ اپنا مستقبل دلکش بنا چکے ہوتے ہیں فوری طور پر گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں اور نئے کردار نئے سرے سے عوام پر مزید ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر اپنا مستقبل سنوارنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔اس دوران ہمیں دو قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ سب لٹ چکا ہے ، خزانہ خالی ہے اور ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے کیونکہ عوام ٹیکس نہیں دیتے اس لیے قرضہ لینا مجبوری ہے جبکہ عام آدمی ایک روپے کی چیز پر بھی ٹیکس دیتا ہے لیکن اربوں کی جائیدادوں کے مالک اسی عام آدمی پر حکمرانی کرتے ہیں اور سب کچھ فری استعمال کرتے ہیں پھر قرضہ ملنے اور ٹیکس اکٹھا ہونے کے باوجود عوام کو ریلیف کے نام پر بھی مزید ناجائز ٹیکس لگانا ناگزیر ٹھہرتا ہے۔دوسری آواز درباریوں اور خوشامدیوں کی ہے جو کہ ’’سب اچھا ہے ‘‘ کی صدائیں لگاتے ہیں۔ یہ ملک و قوم کے ہی نہیں حکمرانوں کے بھی صریحاً دشمن ہیں جو انعام و کرام کے لیے عاقبت بھلائے قصیدے لکھتے رہتے ہیں
ہمارے خطے میں شہنشاہوں سے لیکر موجودہ حکمرانوں تک اپنی حمایت میں بیانیے بنانے اور تلوار کے زور پر تاریخ لکھوانے کی روایت پرانی ہے لیکن اب فکر و فہم کے زاویے بدل چکے کہ ہر سچ صلیب حرص پر قربان ہو چکا ہے لہذا مسئلہ وہ ہیں جو ان حالات میں بھی اشاروں کنایوں میں مزاحمت کا علم بلند رکھتے ہیںتو طاقتوروں نے یہی حل نکالا ہے کہ مزاحمتی سوچ کو سخت قوانین میں جکڑ دیا جائے تاکہ وہ بے فکری سے من مانیاںو نادانیاں کرتے رہیں ’’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ لیکن ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو بغاوت کو جنم دیتا ہے جس کی ابتدا عدم برداشت سے ہوتی ہے اور وطن عزیز کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ایک قوم بن نہ سکے بے ہنگم ہجوم بن گئے ہیں جو مرنے مارنے کو تیار رہتا ہے کہ کسی کو مذہب کے نام پر، تھانے سے نکال کر زندہ جلا دیا جاتا ہے ، کسی کو سر عام گولیاں مار دی جاتی ہیں ،بلا اجازت کھیت میں داخل ہونے پر جانوروں کی ٹانگیں کاٹ دی جاتی ہیں اور پرچہ نامعلوم افراد کے خلاف کٹ جاتا ہے کیونکہ چور اور چوکیدار ملے ہوئے نہ ہوں تو واردات نہیں ہوسکتی اورہمارے معاشرے کا مزاج بن گیا ہے کہ ’’ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں ‘‘۔جب معاشرہ اس حد تک جنگل کی صورت اختیار کر جائے تو تو اختلاف و تنقیدکو اصلاح سمجھنا چاہیے مگر حکمران دشمنی کے مترادف سمجھ رہے ہیں ‘یہ بھی عدم برداشت کی ہی ایک شکل ہے جس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے حالانکہ اختلاف ایسا آئینہ ہے جو آپ کو بدصورتی دکھاکر تاریخی حوالوں سے حل بھی بتاتا ہے لیکن اب آئینے توڑ دیے جاتے ہیں اور وہی دیکھا جاتا ہے جو شاہ کو شاہ کے مصاحب دکھاتے ہیں۔۔جیسا کہ بجٹ کی مد میں ہوا ہے۔یوں لگتا ہے کسی " عاقبت اندیش" نے بجٹ بنایا ہے.
وفاقی بجٹ میں 38 کھرب کے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیاہے۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے سبسڈی کی مراعات ختم کردی گئی ہیں اور 450 ارب کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، جسکے نتیجے میں اسٹیل مصنوعات، گاڑیاں، کاغذ، کتابیں، کاپیاں، اسٹیشنری، نیوز پرنٹ، مشروبات، ڈرائی فروٹ، بچوں کا خشک دودھ، چمڑے کی مصنوعات، پولٹری فیڈ،، پھل، سبزیاں یعنی سب کچھ مہنگا ہو جائے گاجو کہ پہلے ہی قوت خرید سے باہر ہے۔ پٹرولیم، ڈیزل پر 20 روپے لیوی بڑھا دی گئی ہے، بجٹ خسارہ کل بجٹ کا تقریباً نصف کے قریب 8500 ارب ہے جب کہ سود کی ادائیگی کے لیے 19775 ارب درکار ہوں گے۔اگرچہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بالترتیب 25 فیصد تک اور 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے لیکن دوسری جانب ٹیکس سلیب میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا گیا ہے اور جو کم سے کم اجرت 37 ہزار کر نے کا شور ہے اسے آجر حضرات دینے سے انکاری ہیں۔کسان ، ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ سیکٹر بزنس کمیونٹی،صحافی ،تنخواہ دار ،ڈاکٹر سبھی سراپا احتجاج ہیں اور حکومتی ترجمان باتیں بگھار رہے ہیں جبکہ قریبی ناراض ساتھی بخیے ادھیڑ رہے ہیں کہ کیسے حکومت ملی اور ہم انتخابات کیوں نہیں کروانا چاہتے تھے وغیرہ۔۔ (ن) لیگ کی اتحادی جماعت پی پی پی نورا کشتی میں مصروف رہتی ہے بظاہر لگتا ہے کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیکر عوام کے لیے بہتر فیصلہ کروائیں گے لیکن بعد میں اکٹھے دعوت اڑاتے نظر آتے ہیں ۔
خدا لگتی کہوں تو موجودہ حالات انتشار و خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں! آج عوام پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں جمہور کے لیے کچھ نہیں بلکہ اس کی رگوں سے ٹیکس نچوڑ کر مراعات اور آسائشیں اشرافیہ کو دی جا رہی ہیں۔آئی ایم ایف کے مشکل فیصلوں کی زد میں عام آدمی ہی کیوں آرہا ہے ؟حکمرانوں کے دلوں میں خوف الٰہی اور خوف آخرت کیوں نہیں ہے ؟ یہ بے حسی کی انتہا ہے کہ عوام ناجائز ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے مسیحا کو پکار رہے تھے اور کمر توڑ کھربوں کے ٹیکس لگا کر کہا گیا ہے کہ مستقبل کا راستہ چن لیا ہے ؟ یہ مستقبل کا راستہ نہیں بلکہ دائرے کا سفر ہے اور دائرے کے سفر میں صرف سفر ہوتا ہے منزل نہیں ہوتی اور سفر شروع ہوگیا ہے بس یہ دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ دائرے کا سفر کب تک جاری رہتا ہے کیونکہ حالیہ بجٹ کے بعد یہی لگ رہا ہے کہ دائرے کا سفر آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔۔