قرارداد پاکستان اور علامہ شبیر احمد عثمانی

تحریک پاکستان اورنظریہ پاکستان میرے پسندیدہ موضوعات ہیں میں انھیں طالب علمانہ انداز سے پڑھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزوں کی رنگت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن تاریخ وہ سچ جو چھپائی نہیں جاتی ہاں کبھی مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن تاریخ واپس اپنی اصلی حالت میں کہیں نہ کہیں محفوظ ہوتی ہے۔محترم دانشور کالم نگار وجاہت مسعود صاحب نے ذکر قرداد پاکستان اور علامہ شبیر احمد عثمانی چھیڑا ہے تو سوچا کہ میں بھی کچھ تاریخی حقائق آپ کے سامنے لاؤں۔
آپ لکھتے ہیں (24مارچ 1940کی قرارداد میں مسلمانوں کے سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کی غرض سے تقسیم کا مطالبہ کیا گیا۔ اس بنیادی دستاویز کے متن میں اسلام، اسلامی نظام یا اسلامی مملکت کا کوئی اشارہ تک موجود ہو، تو اس کی نشاندہی کی جائے۔)جی ہاں قرداد پاکستان میں براہ راست اسلامی ریاست کا تذکرہ نہیں ہے لیکن جو کچھ ہورہاتھا وہ ایک آزاد اسلامی مملکت کی خاطر ہورہاتھا وضاحت کیلئے اس سے اگلے دن یعنی 25 مارچ 1940 کاء￿  انقلاب اخبار نے پہلے صفحے پر واضح قرارداد کا متن یوں رپورٹ کیا تھا کہ "ہندوستان کے آئندہ دستور کے اسلامی اصول " پھر چار پیراگراف میں سے الف پیراگراف کہ’’آزاد اسلامی حکومتیں‘‘ والی سرخی اخبار کی زینت بنی تھی بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحبہ اسی دن وہاں موجود تھیں، بلکہ خواتین رضاکار ٹیم کی کپتان مقرر کی گئی تھیں۔ آپ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ "1940کی اسی قرارداد کے بعد مسلمانان ہند کے سامنے پہلی مرتبہ ایک آزاد خودمختار اور اسلامی مملکت کا تصور پوری وضاحت کے ساتھ ابھراجبکہ بیگم مولانا محمد علی جوہر نے اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے قرارداد پاکستان قرار دیا کہنے کا مطلب یہ ہیکہ اسی روز سے لوگ اس مقصد کو سمجھتے اور باطنی مطلب کی روح مانتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ کسی دور میں قائداعظم مذہب کو سیاست سے الگ سمجھتے اور جب گاندھی نے مذہب کو سیاست میں ملوث کیا تو قائداعظم نے بغاوت کر دی اور کانگرس کے ناگپور جلسہ میں ناخوشگوار واقعہ ہوا۔ وہی قائداعظم جب تجربات، مشاہدات اور غور و فکر کی بھٹی میں پگھل کر کندن بنتے ہیں، اسلامی تعلیمات کو سمجھتے ہیں اور قرآن حکیم پر تدبر کرتے ہیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں سیاست کو مذہب سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ یا تو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہ کہئے اور عیسائیت کی مانند چرچ کو طلاق دے کر سیاسی و عملی زندگی سے نکال دیجئے ورنہ اگر آپ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں تو پھر سیاست کو کیونکر اس سے الگ کریں گے۔
 قائداعظم کے کچھ اقوال نقل کررہاہوں ذرا غور کیجئے کہ وہ جون 1938ء میں فرماتے ہیں ’’مسلمانوں کیلئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ ہے قرآن پاک۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے۔ آزادی، مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے میں بھی ان ہی تین چیزوں کے حصول کا متمنی ہوں۔ تعلیم قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے اور اسی کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔‘‘
بحوالہ روزنامہ انقلاب 12 جون 1938ء وزیر آباد کے محمد شریف طوسی نے انگریزی اخبارات میں پاکستان کے حق میں اتنے مدلل اور زور دار مضامین لکھے کہ قائداعظم نے متاثر ہو کر انہیں بمبئی بلایا اور چھ ماہ اپنے پاس رکھ کر ان سے ’’پاکستان اینڈ مسلم انڈیا‘‘ اور ’’نیشنلزم کنفلکٹ ان انڈیا‘‘ جیسی معرکۃ الآرائکتابیں انگریزی زبان میں لکھوائیں۔ طوسی صاحب نے اپنی چھ ماہ کے قیام کی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ قائداعظم ہر روز صبح علامہ یوسف علی کے قرآن حکیم کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے اور سید امیر علی کی کتاب ’’سپرٹ آف اسلام‘‘ پڑھ لیاکرتے تھے۔ انہوں نے شبلی نعمانی کی کتاب ’’الفاروق‘‘ کے انگریزی ترجمے کو بغور پڑھ رکھا تھا۔ یہ ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا۔ ان کی لائبریری میں سیرت نبوی اسلامی تاریخ اور قرآن حکیم کے تراجم پر بہت سی کتابیں موجود تھیں۔ جو ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں اسی طرح جب حکیم الامت مولانا اشرف تھانوی نے محسوس کیا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد اقتدار مغربی تعلیم یافتہ لیڈران کو ملے گا تو انہوں نے ان کی مذہبی تربیت کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے لئے ایک وفد ترتیب دیا جس کے سربراہ مولانا مرتضیٰ حسن تھے اور اس روز میں مولانا شبیر علی تھانوی‘ مولانا عبدالجبار‘ مولانا عبدالغنی‘ مولانا معظم حسین اور مولانا ظفر احمد عثمانی شامل تھے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے تھے جبکہ مولانا شبیر علی تھانوی مولانا اشرف تھانوی کے بھتیجے تھے۔
 دسمبر 1938ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہونا تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی والدہ کی علالت کے سبب جا نہ سکے چنانچہ دوسرے حضرات وفد کی صورت میں پٹنہ پہنچے۔ نواب اسماعیل خان کے ذریعے قائداعظم سے رابطہ ہو چکا تھا۔ پٹنہ میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے ذریعے قائداعظم سے پٹنہ جلسہ عام سے پہلے کا وقت مانگا گیا کیونکہ علماء قائداعظم سے ملے بغیر مسلم لیگ کے جلسے میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 25 دسمبر 1938ء کو شام پانچ بجے یہ وفد قائداعظم سے ملا۔ ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی جس کی تفصیل مولانا شبیر علی تھانوی کی ’’روئیداد‘‘ میں موجود ہیں وفد کے تاثرات ان الفاظ میں جھلکتے ہیں ’’ہم ان (قائداعظم) کے جوابات سے متاثر ہوئے۔ ان کے کسی دینی عمل کی کوتاہی کے متعلق عرض کیا گیا تو بغیر تاویل حجت اپنی کوتاہی کو تسلیم کیا اور آئندہ اصلاح کا بھی وعدہ کیا… یہ صرف حضرت تھانوی کا روحانی فیض کام کر رہا تھا ورنہ جناح صاحب کسی بڑے سے بڑے کا اثر بھی قبول نہ کرتے تھے۔‘‘ چنانچہ اس وفد نے پٹنہ میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جہاں مولانا اشرف تھانوی کا تاریخی بیان پڑھا گیا۔ اس کے ذریعے ارباب و ارکان مسلم لیگ کو اسلامی شعائر کی پابندی کی تلقین کی گئی تھی۔ دوسری ملاقات 12 فروری 1939ء کو دہلی میں شام رات بھر ہوئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد قائداعظم نے کہا کہ ’’میری سمجھ میں آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے‘‘ (بحوالہ روئیداد ازمولانا شبیر علی تھانوی صفحہ نمبر7) یہ سب قرارداد پاکستان 1940 سے پہلے کی کارگزاری ہے۔باقی پھر کبھی انشاء اللہ
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...