یونیورسٹی آف گجرات کی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر محمد یوسف بشیر ایسی متحرک، جفاکش اور عمل افزا شخصیت یہاں فیکلٹی ممبر ہے۔ نوجوانی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں تو پیشین گوئی مشکل نہیں کہ وہ قابل رشک ترقیاں کریں گے کیونکہ انہوں نے کتاب خواں سے کتاب نویس بننے کا سفر بھی دھماکہ خیز انداز سے کیا ہے اور اپنی کتاب "دی کنسٹرکشن آف کلچر اینڈ کمیونیکیشن ان گلوبل ساؤتھ" کی تدوین اور اشاعت کو بین الاقوامی سطح پر ممکن بنایا ہے۔ ڈاکٹر محمد یوسف نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو ستاروں پہ کمند ڈالتے ہوئے چین جا پہنچے اور وہاں کمیونیکیشن سٹڈیز میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے مختلف ملکی اور غیر ملکی جرائد میں شائع ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں کلچر کے موضوع پہ لکھے گئے ان کے مقالوں کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے جس کے نصف درجن مصنفین غیر ملکی ہیں بلکہ سب کا تعلق دنیا کے جنوب سے ہے اور وہ سبھی شمال کی ثقافتی بالا دستی سے متفکر ہیں۔ اس کتاب کی تعارفی تقریب صاحبان علم وحکمت کی کہکشاں بن گئی۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات، چئیرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر، انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز جامعہ پنجاب کی سربراہ ڈاکٹر نوشینہ سلیم، رئیس شعبہ ابلاغیات یونیورسٹی آف اوکاڑہ ڈاکٹر زاہد بلال، کاشف منظور ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریز، جید صحافی، ادیب اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد کا موجود ہونا کتاب اور صاحب کتاب کی اہمیت کی غماز تھا۔ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن اس تقریب رونمائی کی میزبان تھی۔ اپنے خطاب میں صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کا کہنا تھا کہ اس کتاب کی صورت میں ڈاکٹر محمد یوسف بشیر نے گلوبل ساؤتھ کی ثقافتی تاریخ کو محفوظ کردیا ہے۔ اس طرح کے تحقیقی کام کی ہرصورت میں بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے ڈاکٹر محمد یوسف کے تخلیقی کام کو سراہا اور اس کتاب کو عالمی جنوبی خطے کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے اہم دستاویز اور سنگ میل قرار دیا۔ ڈاکٹر شاہد منیر کا۔کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد یوسف چند ماہ قبل اپنی کتاب لئے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن کے دفتر تشریف لائے تو میں نے سرسری نظر دوڑاتے ہی اس کتاب کے معیار اور اہمیت کو بھانپ لیا تھا اور میں نے ان کو تقریب رونمائی کے انعقاد اور موضوع کے حوالے سے شخصیات کو اس میں نڈعو کرنے جا۔مشورہ اور ترغیب دی تھی جس پر ڈاکٹر محمد یوسف نے چابک دستی سے عمل کیا ہے۔ اس کتاب پر میں انہیں باقاعدہ مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے اس جمود کو توڑا ہے جس کا شکار ہمارے سکالرز ہوئے پڑے ہیں۔ کتاب نویسی دنیا میں بہت وسیع مارکیٹ ہے جس میں ہمیں اپنا آپ منوانا ہے اور اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکیشن نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں فخر ہے کہ صاحب کتاب ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔کاشف منظور ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریز نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف بشیر کی کاوش لائق تحسین اور اس کے زریعے بہت سے مسائل کا حل مل سکتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر زاہد بلال نے کہا کہ آج ہمیں اپنے کلچر اور اقدار سے جڑنے کی ضرورت ہے۔ کتاب کے ایڈیٹر ڈاکٹر محمد یوسف نے کہا کہ ہم نے اس کتاب میں مغرب کے برعکس دوسرے ممالک میں تخلیق ہونے والے علم اور اسکی تدوین کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد یوسف نے کہاکہ دور حاضر میں میڈیا تبدیلی کا مرکز و محور بن چکا ہے۔ علم کا فروغ ہمیشہ گلوبل نارتھ میں ہوا مگر ساؤتھ کے مسائل کو وسیع تناظر میں رکھتے ہوئے تحقیقی عمل کے ذریعے مقامی حل ممکن ہے۔ گلوبل ساؤتھ مختلف النوع مقامی ثقافتوں کے بل بوتے پر ایک خاص طرز زندگی کا حامل ہے۔ تقریب کی نقابت مرزا محمد یسین بیگ کے سپرد تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کتب سے مقامی منظر نامے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر مبینہ افتخار نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر محمد یوسف نے رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے ان کی زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ڈاکٹر مرتضی عاشق نے کہا یہ کتاب پاکستان میں اساتذہ اور طلبا کے لیے ریفرنس کا کام کرے گی۔ مقررین اس حقیقت پر متفق نظر آئے کہ ہماری زمین کے آباد رقبے کی شمالی اور جنوبی حصے میں تقسیم بڑی واضح ہے۔ خط استوا کے اوپر یعنی شمال میں واقع ممالک نچلے حصے یعنی جنوب کے مقابلے میں طاقتور اور خوش حال ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ طاقتور اور غالب ریاستوں کی تہذیب وثقافت بھی کمزور ریاستوں کی ثقافت پر چھا جاتی ہے۔ فرانس اور برطانیہ نے دو صدیاں پہلے نو آبادیاتی نظام کو تشکیل دیا۔ یہ دونوں طاقتور ملک جن ملکوں پر قابض ہوئے وہاں انگریزی اور فرانسیسی کلچر کی گہری چھاپ ہے۔ ہر دور میں تہذیبی اقدار اور سماجی روایات عام رہیں معاشرے ان کے اثرو رسوخ سے متاثر ہوتے رہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی تہذیب و ثقافت کا عروج رہا۔ یونانی، ایرانی، رومی، اسلامی او ر مغربی تہذیبوں نے اپنے اپنے دور عروج میں عالم انسانیت کے ایک خاصے حصے کو متاثر کیا۔ ہر تہذیب اپنے مذہب و ثقافت کی روشنی میں خوبیوں اور خامیوں کے حوالے سے مخصوص خد و خال رکھتی ہے۔ بعض اوقات ایک نکتہ نظر سے کوئی چیز خوبی شمار ہوتی ہے لیکن دوسرے اسے خامی گردانتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کبھی کبھار تہذیبوں کا ٹکراو? بھی عمل میں ا?جاتا ہے۔ کلچر کے غلبے کو جامعات میں زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ یہ بحث اس لئے بھی ضروری ہے کہ غور و فکر نہ کیا گیا تو شمال کا کلچر جنوب کے کلچر کو ہڑپ کر جائے گا۔ اس موضوع پر امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کے متعدد مصنفین میں سے ایک مصنف کا تعلق پاکستان سے ہے۔ تقریب کا حاصل ایک جملہ تھا کہ یونیورسٹی اساتذہ کو کتاب نویس اور کتاب بینی کا وکیل ہونا چاہیے۔