ٹی ٹی پی اور را کی جاری دہشت گردی اور عالمی خاموشی

یہ امر غالبا کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ گزشتہ 45بر س سے افغانستان،بھارت اور دیگر کئی خفیہ تنظیموں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں پورا خطہ بد امنی کا گہوراہ بنا ہوا ہے اور اسی ضمن میں کئی حلقے ’’intelligence craft of intelligence agency‘‘  کی اصلاح استعمال کر رہے ہیں۔دوسری جانب یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنڑ میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما کو ہلاک کر دیا گیا۔  تفصیلا ت کے مطابق دہشت گرد عبدالمنان عرف حکیم اللہ صوبے کے ضلع اسد آباد میں مارا گیا اور وہ ٹی ٹی پی کی ملاکنڈ شوریٰ کا رکن تھا۔ذرائع کے مطابق عبدالمنان پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ، بارودی سرنگ کے دھماکے، سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر فائرنگ اور بھتہ خوری سمیت متعدد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ وہ ٹی ٹی پی رہنما عظمت اللہ محسود کا دایاں ہاتھ تھا اور اس نے باجوڑ میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔واضح رہے کہ مذکورہ دہشت گرد نے 2007 میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور سیکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں کے خلاف متعدد کارروائیوں میں حصہ لیا تھا علاوہ ازیں منان کے بھائی طارق عرف اسد کا تعلق بھی کالعدم ٹی ٹی پی سے ہے۔ مبصرین کے مطابق اس امر سے ہر ذی شعور بخوبی آگاہ ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سرکردہ دہشت گرد تنظیم ہے اور افغان دہشت گردوں کے ٹھکانے اس وقت کنڑ، نورستان، پکتیکا، خوست اور ملک کے دیگر علاقوں میں موجود ہیں۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ عبدالمنان کی ہلاکت تقریباً ایک ہفتے بعد ہوئی ہے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے دفاتر قائم کرنے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن (IBO) کیا۔کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے مطابق، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کئی خطرناک دہشت گردوں کو بھی حراست میں لیا، جن میں اعلیٰ مالیت اور انتہائی مطلوب اہداف شامل تھے۔اس ضمن میں سی ٹی ڈی حکام نے انکشاف کیا کہ پکڑے جانے والوں میں ٹی ٹی پی خوارج کی شوریٰ کا بدنام زمانہ اور انتہائی مطلوب کمانڈر بھی شامل ہے۔ایجنسیوں کی ابتدائی تفتیش کے مطابق گرفتار دہشت گرد ملکی اور بین الاقوامی دہشت گردوں سے روابط کے علاوہ پاکستان کے خلاف متعدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔قومی سلامتی کے ذمہ دار حکام کو توقع تھی کہ ملک کے اندر ایسے نیٹ ورکس کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جائیں گی کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار افراد سے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
21 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں فعال داعش، القاعدہ، ٹی ٹی پی، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے خلاف موثر اور متواتر کارروائی کرے۔انہوں نے اس ضمن میں کہا: ’افغانستان میں فعال ان گروہوں میں چند کو جو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے وہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں اور عالمی برادری کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کے لیے اور اس کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان گروہوں میں تحریک طالبان پاکستان، پاکستان کے لیے براہ راست اور سنگین خطرے کا باعث ہے۔ ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں سرحد پار پاکستان پر کئی حملوں کی ذمہ دار ہیں جن میں عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں سمیت سینکڑوں جانیں جا چکی ہیں۔‘
پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دنوں میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے ایک 26 مارچ کو خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی شہریوں کی بس پر ہونے والا خود کش دھماکہ تھا، جس میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے پانچ چینی انجینیئرز جان سے چلے گئے تھے۔یاد رہے کہ پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث 11 عسکریت پسندوں کو مئی میں گرفتار کیا تھا، جن کے حوالے سے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ رائے طاہر اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے بتایا کہ گرفتار افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے، ’جو افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں سے ہدایات لے رہے تھے۔‘منیر اکرم نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے اعلیٰ سطح پر کئی بار افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے رابطہ کر کے ان حملوں کو روکنے کا کہا ہے، لیکن بدقسمتی سے کئی بار وعدوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔’پاکستانی سرحد کے قریب اب بھی دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ سرحد پار حملے جاری ہیں اور ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے کئی چینی انجینیئرز کو قتل کر چکے ہیں۔‘
منیر اکرم کا اپنی تقریر میں مزید کہنا تھا کہ ’16 مارچ کو حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے سرحد پار سے ایک حملے میں کئی پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا۔’جس کے بعد 18 مارچ کو پاکستان نے سرحد کے قریب افغانستان میں واقع دہشت گردوں کے ٹھکانے کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں نشانہ بنایا تاکہ ہم ایسے حملوں سے اپنی زمین کا دفاع کر سکیں۔ اس حملے میں دہشت گرد مارے گئے، عام شہری نہیں۔‘انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ’اس بات کی تحقیقات کرے کہ ٹی ٹی پی کو جدید اسلحہ اور فنڈنگ ملنے کے ذرائع کیا ہیں، جن میں بیرونی ذرائع بھی شامل ہیں، جو 50 ہزار ٹی ٹی پی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو میسر ہیں۔‘پاکستانی مندوب کے مطابق پاکستان پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ  افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان اور عالمی برادری کی اولین ترجیح ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ ’گو کہ پاکستان نے افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے رابطہ رکھنے پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کی صورت حال کو معمول پر لایا جا سکے، لیکن بین الاقوامی برادری اور افغانستان کی عبوری حکومت کو اپنے مقاصد کے بارے میں واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ جب تک ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیسا مستقبل چاہتے ہیں ہم وہ حاصل نہیں کر سکتے۔پاکستان نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے مطالبہ کرے کہ وہ ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیموں سے تعلق ختم کر دے،انہیں پاکستان کے خلاف سرحد پار سے حملے کرنے سے روکے۔ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو غیر مسلح کرے اور اس کی قیادت کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔عالمی اور علاقائی امن کے خواہاں حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ ٹی ٹی پی،را اور داعش کے عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں کارگر ڈھنگ سے نبھائے گی۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...