قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے منصوبے ہوتے ہیں جن سے تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی،سی پیک کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ در حقیقت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ CPEC صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین کی جانب سے اس میں 100ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔چین پاکستان کی سمندر سے گہری،ہمالیہ سے اونچی،اور شہد سے میٹھی دوستی آنے والے دنوں میں قراقرم کی سنگلاخ چٹانوں اور ہمالیہ کی بلندیوں سے اڑان بھرتی ہوئی گوادر کے ساحلوں،بلوچستان کے سونے کے پہاڑوں اور سندھ کے کوئلے سے مالا مال صحراؤں کو چھو رہی ہے۔ا س عظیم انقلابی منصوبے کا آغاز 2015 میں ہوا۔اس کی اہمیت و صلاحیت کا موازانہ یورپ کے مارشل پلان سے کیا جا تا ہے اس کی نمایاں خصوسیات میں 2030ء کے درمیان 23لاکھ ملازمتیں پیدا ہو نگیں۔ 9اسپیشل اکنامک زون بنیں گے جن سے بے روزگاری کا عفریت قابو میں آسکے گا۔ ملکی تعمیر و ترقی،ٹیکنالوجی سماجی و اقتصادی و صنعتی ترقی کے منصوبوں کو 2030 ء تک مکمل ہوناہے۔ جن کی تکمیل سے معیشت میں تیزی کی نوید سنائی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس میں رکاوٹیں کیوں پیش آرہی ہیں۔کیوں اس کے پراجیکٹ مکمل نہ ہو سکے۔سی پیک پر کام کرنے والے چینی کیوں نشانہ بن رہے ہیں؟2015 سے 2018ء تک منصوبوں پر تیزی سے کام جاری رہا۔لیکن بعد یہ رفتار دھیمی پڑ گئی۔سی پیک میں گوادر کے لئے 14 پرا جیکٹ رکھے گئے ہیں افسوس 8 سال بعد صرف تین ہی مکمل ہو ئے اور گیارہ ابھی تک نا مکمل ہیں۔پاکستان منسٹری آف پلاننگ کے مطابق 24 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے 36منصوبے مکمل ہوئے ہیں جبکہ 5 بلین ڈالر کی لاگت سے 22 بڑے منصوبوں کی تعمیر جاری ہے۔اس وقت 27بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔چین نے پہلے پیکج کے طور پر 65 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔صوبہ بلوچستان کے لئے بھی 27 منصوبے تشکیل دئیے گئے ہیں۔ انرجی کے 13 منصوبوں سے 8 ہزار 20 میگا واٹ بجلی حاصل کی گئی ہے۔ لیکن یہ بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا۔ بلاشبہ خطے میں چینی اثرورسوخ سے خائف امریکہ کی ایک بڑی گیم جاری ہے۔ دوسری جانب حالیہ پاک چین سیاسی جماعتوں کے فورم اور اقتصادی راہداری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مشترکہ مشاورتی اجلاس میں ملک کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی شرکت خوش آئند ہے۔اس منعقد ہ اجلاس میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی خارجہ کمیٹی کے رکن اور وزیر لیو جیان چاؤبھی شریک تھے اور ایسے موقع پر پاکستانی سیاسی قیادت کی جانب سے مشترکہ شرکت پاکستان اور چین کی ٹھوس اور سدا بہار تزویراتی شراکت داری‘ اور سی پیک کیلئے سنجیدگی سیاسی قیادت کی جانب سے سیاسی استحکام کا اشارہ ہے۔ در حقیقت پاکستان وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک یعنی ایک وسیع دنیاکے لیے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات ہیں۔ چین اس وقت پوری دنیا میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پاکستان میں اس کی دلچسپی کی سب سے بڑی مثال اقتصادی راہداری کے منصوبے کے حوالے سے چین کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک میں یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے اور یہ کہ چین پاکستان تجارتی راہداری حقیقت بننے کو تیار ہے۔بلاشبہ چین اور پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، تاہم اِن کے تعلقات ا?ن ممالک کو ایک نظر نہیں بھا رہے جو خطے کے وسائل پر قابض ہونے ا?ور یہاں پر اپنی بالادستی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ استعماری قوتوں کو سی پیک مسلسل کھٹک رہا ہے اور وہ اسے سبوتاڑکرنے کے لیے سر گرم عمل ہیں۔ دشمن جانتا ہے کہ یہ ایک معاشی گیم چینجر منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے وطن عزیز پاکستان میں ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھلیں گے۔چنانچہ ضروری ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی قیادتیں اتفاقِ رائے اور ملکی مفادات کو مد نظر رکھیں اور اس کیلئے ذاتی سیاسی مفادات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب، امارات اور قطر کے دورے کے بعد چین کا دورہ بھی کامیاب رہا۔ہر ملک کی طرف سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے گئے جس سے پاکستان کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے اندر موجود کچھ لوگ سیاسی مخالفت کی بنا پر سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔ان کا ایسا کرنا ملک دشمنی سے کم نہیں۔جبکہ عالمی معیشت و سیاست میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادی ممالک کے لئے پریشانی کاسبب بن رہی ہے۔چین کی یہ خواہش ہے کہ ایشیاء ،افریقہ اور یورپ کو کسی نہ کسی طور پر ایک بھرپور
بلاک کی شکل میں عالمی معیشت کے بڑے عنصر کے طور پر سامنے لائے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔دنیا کے کئی ایک ممالک میں سرمایہ کاری کیلئے چینی سرمایہ کاروں نے بھی محفوظ ڈالرز کے ذخائر کی انبار سازی کا وسیع پیمانے پر استعمال کا آغاز کر رکھا ہے جس کیلئے روزگار کے نئے مواقع بھی فراہم کئے جا رہے ہیں۔واشنگٹن جو ان دنوں چین کی بڑھتی ہوئی صنعتی، دفاعی اور جوہری صلاحیتوں سے خائف دکھائی دے رہاہے بالکل اسی طرح کے حالات کا سامنا اسے 1980ء میں کرنا پڑا تھا جب جاپانی صنعتی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اسے خوف کا شکار کئے رکھا تھا لہٰذا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ عالمی افق پر چین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پرامریکہ کے تحفظات اوریوکرائن تنازع پر روس ومغرب کے مابین کشیدگی نے خطے میں اتحاد سازی کے عمل کو تیز اور مستحکم کردیا ہے۔مغرب اور بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے نت نئے مذموم منصوبوں کے ساتھ خطے میں انتہاء پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک مضبوط پاکستان چین کا ساتھ دے یہی وجہ ہے کہ اب بھارت دہشت گردتنظیموں کومالی امداد اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کرکے خطے کو تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ سی پیک منصوبہ درحقیقت پاکستان کو معاشی اہمیت کی بلندی پر کھڑا کرسکتا ہے۔ اقتصادی زونز صنعتی پارکس، آئل پائپ لائنز کے قیام سے جہاں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے،وہیں تزویراتی طور پر بین الاقوامی اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ سے بے شک پورے خطے کے لیے اقتصادی ترقی کے دروازے کھل جائیں گے،اور پاکستان بحرانوں سے نکل جائے گا۔