معمول کے مطابق پاکستان میں دومرتبہ موسلادھار بارشیں ہوتیں لیکن پانی کے ذخیرہ کیلئے کوئی مناسب اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے خشکی کے دنوں میں پانی کی قلت کا سامنارہتاہے۔ بڑے ڈیم اور بڑے منصوبے اپنی جگہ اہم ہیں لیکن چھوٹے ڈیموں کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں بلکہ چھوٹے منصوبے کم لاگت، کم جگہ، کم وقت اورکم ماحولیاتی آلودگی کے عوض ہماری ضروریات پورا کرسکتے ہیں۔ پاکستان اپنے زمینی خدوخال کی وجہ سے خوش قسمت ملک ہے جہاں بے شمار ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیم بناکر ہم نہ صرف اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ زراعت اور پینے کے پانی جیسے دیرینہ مسائل بھی حل کرسکتے ہیں حکومت کئی بار ایسے منصوبوں کا اعلان توکرتی ہے مگر اس پر عمل کم ہی نظرآتاہے۔
قتل و غارت نے خوف و ہراس کی فضا گرم کر رکھی ہے۔ انسان نہ اپنے گھر کی چار دیواری میں محفوظ ہے نہ چار دیواری کے باہر‘ تنگ گلیاں‘ فٹ پاتھ‘ کھلے راستے‘ چوراہے اور چوک کون سی جگہ محفوظ ہے۔ زندگی انسان سے امتحان لیتی ہے۔ جو انسان اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے گھر سے نکلتا ہے طبقاتی تقسیم فرقے بازیاں اور غیر منصفانہ روّیے اسے کسی گندے نالے کے کونے میں نشہ کرنے والے مایوس انسان میں بدل دیتے ہیں۔ کردار انسان کی پیدائش کے ساتھ جنم نہیں لیتا بلکہ ایک معصوم مسکراہٹ‘ زمانے کے دل چیرنے والے قہقہوں کی بدولت اپنی معصومیت کھو دیتی ہے۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو مگر ایک انسان ناکام و نامراد دنیا سے چلا جاتا ہے۔راقم نے بہت سے ایسے خاندانوں میں انتہائی ذہین و فطین لوگوں کو ذہنی مریض بنتے دیکھا ہے۔ تحقیق کے بعد معاملات سامنے آتے رہے ان میں والدین کی ناچاقیاں‘ ان میں صبر و برداشت کی کمی‘ باہر کے لوگوں اور دیگر رشتہ داروں کی بلاوجہ مداخلت۔ یہ کہنے کو یا سمجھنے کو شاید لوگوں کو معمولی بات لگے لیکن یقین جانیں یہ باتیں معمولی نہیں ہیں۔ یہ ایک انسان کی زندگی ہی نہیں مکمل خاندان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ایسا کرنے والے تماشائیوں میں سب سے آگے تالیاں بجاتے ہیں مگر زبان سے اظہار ہمدردی کرتے نظر آتے ہیں۔ انسان معاشرتی جانور ہے اسے ہر حال میں معاشرے سے رابطہ اور میل جول بڑھانا ہوتاہے لیکن اس کے لیے جب تک وہ ایک خاندان سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھ سکے اپنے بچوں‘ بیوی اور والدین کے علاوہ دیگر رشتہ کی اہمیت اور خاص مقام کو نہ سمجھ سکے وہ ایک معاشرے کا مفید فرد کیسے بن سکتا ہے۔ اسی لیے تو ہر رشتے کا مقام اسلام نے بھی کھول کھول کے بتا دیا ہے تاکہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی بنا پر مسائل پیدا نہ ہوں۔ قلم دوات اور کاغذ ادیب کے بہترین ہتھیار‘ اوزار اور دل سے جڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح خاندان کا ہر فرد اس خاندا ن کے ذمہ دار کا قلم دوات اور کاغذ ہوتا ہے۔ وہ اپنی جذباتی وابستگی‘ محبت کی گہرائی اپنے کردار کے اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت ان کی زندگیاں کامیاب بنا کے دیتا ہے۔ بہت کم ہوتا ہے کہ اپنے فرائض کی مکمل ادائیگی تھوڑے جلال اور زیادہ جمال کے ساتھ کرنے والے خاندانوں میں کوئی فرد معاشرے کا ناکارہ حصہ بنتا ہو۔ انہی خاندانوں سے بننے والے افراد سیاست‘ بزنس‘ تعلیم اور مختلف شعبوں میں جاتے ہیں۔ اچھی تربیت ان کو وطن کی خدمت کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے معاشرتی طور پر بہت مضبوط اور طاقتور انسان کیسے بھی حالات سے گزر رہے ہوں وہ اپنے کسی ساتھی کو کبھی نقصان نہیں پہنچاتے۔ ایسے افراد وطن کی طاقت بنتے ہیں نہ ان کے ہاتھ میں کشکول ہوتا ہے نہ ان کی زبان پہ شکوہ نہ ان کی نظر میں لالچ نہ سینے میں کینہ ایسے افراد ہمارے وطن کی ضرورت ہیں۔ ان کو بنانے کیلئے معاشرہ کی مدد نہیں ایک خاندانی نظام کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ایک انسان کو مکمل اور بھرپور کردار کا حامل کر کے خاندان ہی معاشرے کے حوالے کرتاہے۔تو کیوں ہم اتنے قیمتی خزانوں کو بے سبب جلا کے راکھ کردیں۔ ہمیں ان معصوم بچوں سے اپنی زندگی کو خوبصورت بنانا ہی ہے کیوں نہ ان کے معصومیت کے دور میں ہی ان کی زندگیوں کو محبت اعتماد خلوص اور دوستی کے ساتھ پروان چڑھانے کا فیصلہ کر لیں۔ مسکرانا ہم نے بھی ہے اور جینا ہم نے بھی ہے مگر اپنی اولادوں کے ساتھ اور پھر ایک وقت کے بعد ان پر وطن کا حق بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس کو ادا کرنے کے لیے اگر ہم ان کی تربیت میں اپنا ایمانداری کا خون پسینہ شامل کر دینگے تو ہی وہ وطن کی خاطر کرپٹ سیاستدان نہیں بنیں گے۔ کاروبار میں ریاکاری نہیں کریںگے‘ تعلیم کو علم کے معیار پر لاکر اپنے کردار کا حصہ بنائیں گے اور شعور و آگہی کی جس طرح خود منازل طے کی ہونگی ویسے ہی امانت اور ایمانداری کے ساتھ ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ گہری اندھیری گھاٹیوں یا یخ بستہ بلند و بالا چوٹیوں پر وطن عزیز کی خدمت وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے والدین اور اساتذہ نے ان کی تربیت پہ جان ماری ہو۔ ورنہ ہمارے معاشرے کے بے شمار جوان بچے اور بچیاں نہ صرف اپنی زندگیاں برباد کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کی بدنامی کاباعث بھی بن رہے ہیں۔اس نوجوان نسل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، انہیں جب کبھی ہماری محبت دوستی اور اعتماد ملے گا یہ کردار کی گری ہوئی سطح سے بھی باہر نکل کر اٹھ کھڑے ہونگے، یہ ثابت کروانے کیلئے کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ ہمارا بڑھا ہوا ودستی کا ہاتھ اپنے ناکام بچوں کی طرف وہ مضبوط سہارا بن سکتا ہے کہ وہ بچہ وطن کا چمکتا ہوا ستارہ بن سکتا ہے۔ نوجوان نسل کوئی مایوس نسل نہیں ہے۔ بس ان کی تربیت گاہوں کی ذمہ دارشخصیات کو اپنی بصیرت اور سیرت کے آئینے میں ان کو ڈھالنا ہے ورنہ سیرت کا شیشہ بھی ٹوٹ جائے گا، بصارت بھی کھو دیں گے اور سفید لاٹھی ان کے ہاتھوں میں تھما کر ہم اپنی ضعیفی کی بنا پر انہیں سڑک بھی پار نہیں کرا سکیںگے۔پھر حادثات تو ہوں گے، قتل و غارت کا بازار تو گرم ہوگا، خوف و ہراس کی فضا تو پھیلے گی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اس لیے اس کو لمحہ فکریہ سمجھ کر لمحہِ موجود سے اس کی منصوبہ سازی کرنی شروع کردیں۔