حافظ میاں فتح محمد اچھروی

Jun 24, 2024

ڈاکٹر ضیاء الحق قمر

آپ 1835ء میں لاہور کے مضافات میں واقع ایک پر سکون مقام اچھرہ کے ایک صاحب حیثیت گھرانے میں میاں امام الدین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بڑے دین دار اور پابند شریعت تھے اور آپ کے چچا میاں فضل الدین ذیلدار کے منصب پر فائز تھے۔ ان دونوں بھائیوں کا تعلق سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے تھا یہ دونوں خانوادہ مخدومان قصور کے آخری چشم و چراغ حضرت شاہ عبدالرسول قصوری(وفات:1294ھ) سے بیعت اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ قبلہ قصوری صاحب اکثر میاں امام الدین کے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ میاں فتح محمد نے ناظرہ قرآن خوانی کے بعد مقامی سکول سے تعلیم کا آغاز کیا۔ تیسری جماعت کے بعد حفظ قرآن کریم شروع کیا اور خدا داد حافظہ کی بدولت جلد ہی اس سعادت سے سرفراز ہوئے۔ حفظ کی تکمیل کے بعد دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ چیچک کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے آپ کی ظاہری بینائی جاتی رہی لیکن اوائل عمری میں ہی اللہ رب العزت کی جانب سے ملنے والے مقام و مرتبہ کی برکت سے وہ نور بصیرت ملا جس نے آپ کا سینہ جملہ علوم و فنون کے لیے کھول دیا جس کی بدولت آپ نے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ میں کامل دسترس پائی۔
حافظ صاحب اردو، پنجابی، فارسی اور عربی پر بھرپور عبور رکھتے تھے اور ان زبانوں میں آپ کا عارفانہ کلام بھی موجود ہے۔آپ طب اور تصوف میں بھی خاص ملکہ کے حامل تھے۔ طب میں آپ کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ قرب وجوار کے اطباء اپنے لاعلاج مریضوں کو ان کی طرف بھیجتے۔ اللہ تعالیٰ نے حافظ میاں فتح محمد اچھروی کے فیض کو عام کرنا تھا اور ان کی ذات کو مرجع خلائق بنانا تھا اس لیے حضرت شاہ عبد الرسول قصوری نے میاں صاحب کے یہاں تشریف آوری کے دوران ایک چھوٹی سی غیر آباد مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا کہ ’مجھے یہاں نور دکھائی دے رہا ہے ، میں یہاں سے علم و عرفان کا چشمہ پھوٹتے دیکھ رہا ہوں‘ تو مرید صادق میاں امام الدین نے اپنے شیخ کے ارشاد و بشارت کے مطابق اپنے فرزند ارجمند حافظ میاں فتح محمد کے نام کی نسبت سے مدرسہ ’جامعہ فتحیہ‘ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسہ کو حافظ صاحب کی ذات بابرکات کی بدولت خلق خدا میں یوں پذیرائی ملی کہ بہت سے مشائخ عظام اور کبار علماء کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے استفادہ کیا اور انھی کی بدولت اس کثرت سے لوگوں کے سینوں میں قرآن کریم محفوظ ہوا کہ آپ کو ’امام حافظاں‘ کہا جانے لگا۔
اللہ رب العزت نے حافظ میاں فتح محمد کو باطنی طور پر بھی بڑا بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اور سلسلہ قادریہ میں شاہ عبدالرسول قصوری سے بیعت تھے اور قبلہ قصوری صاحب نے ہر دو سلسلوں میں آپ کو خلافت بھی مرحمت فرمائی تھی۔ان کے وصال کے بعد آپ سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی کے اجل خلیفہ خواجہ محبوب عالم توکلی  سے بیعت ہوئے اور جلد ہی خواجہ صاحب نے آپ کو خلافت سے نوازا جبکہ سلسلہ قادریہ میں انبالوی صاحب ہی کے سلسلہ قادریہ کے مجاز بیعت حضرت مولوی نور عالم سے بیعت ہوئے اور ان سے بھی خلافت سے سرفراز ہوئے۔
حافظ میاں فتح محمد روحانیت و طریقت میں بلند مقام و مرتبہ کے حامل ہونے کے باوجود بزرگانِ دین اور مشائخ کرام سے از حد عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت شاہ عبدالرسول قصوری،حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی، حضرت خواجہ محبوب عالم توکلی، حضرت مولوی نور عالم، میاں شیر محمد شرقپوری، پروفیسر مولانا اصغر علی روحی، مولانا طالب العلی اور دیگر حضرات اکثر حافظ صاحب کے ہاں تشریف لاتے اور آپ بھی اولیاء اللہ کی درگاہوں پر حاضری کے لیے تشریف لے جاتے۔ ایک مرتبہ آپ حضرت مجدد الف ثانی کے حضور خانقاہ شریف سرہند میں تشریف فرما تھے تو آپ کی موجودگی میں اک مرد درویش نے ، جو پہلے سے وہاں موجود تھے، مراقبہ میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی خدمت میں عرض گزاری کہ حضرت میں اب جانا چاہتا ہوں لیکن زاد راہ نہیں ہے، کوئی انتظام فرما دیں۔ حضرت مجدد صاحب نے فرمایا، اچھرہ سے حافظ فتح محمد آئے ہوئے ہیں ان سے زاد راہ لے لیں۔اس درویش نے عرض کیا کہ میں تو ان سے آشنا نہیں ہوں کہ وہ کون صاحب ہیں۔ اس پر ان کو حافظ صاحب کی شکل دکھا دی گئی۔ مراقبہ سے فارغ ہو کر اس مسافر ہے ساماں نے حافظ فتح محمد صاحب کو پہچان تو لیا لیکن آپ کے دبدبے کی وجہ سے پیسے مانگنے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ مانگوں نہ مانگوں کی کش مکش میں خانقاہ سے نکل پڑا۔ پھر حضرت مجدد صاحب کی جانب سے روحانی طور پر حافظ صاحب کو ارشاد ہوا کہ جو مسافر احاطہ سے باہر جا رہا ہے اس کو اتنے پیسے دے دیں۔ تو حافظ صاحب نے اپنے خادم جمال الدین کو حکم دیا کہ جو مسافر خانقاہ کے احاطہ سے باہر جا رہا ہے اس کو اتنے پیسے دے دو، وہ اٹھا اور اس نے مذکورہ درویش کو زادِ راہ دے کر رخصت کیا۔
حافظ میاں فتح محمد بڑے متقی اور پرہیز گار تھے اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے آپ کو مستجاب الدعوات بنایا تھا۔ میاں شیر محمد شرقپوری بھی اکثر اپنے متعلقین کو دعا کے لیے آپ کے پاس بھیجتے۔ آپ محض ایک گوشہ نشین زاہد نہیں تھے بلکہ فتنوں کے رد اور سنتوں کے احیاء میں بڑے مستعد تھے۔ آپ نے برصغیر پاک و ہند میں اٹھنے والے فتنہ انکار حدیث کے سرخیل غلام نبی المعروف عبداللہ چکڑالوی کے باطل عقائد کے رد میں کئی عالمانہ و محققانہ رسائل اور ایک مدلل کتاب بعنوان ’صلاۃالقرآن بمتابعۃ حبیب الرحمن‘ لکھی۔ آپ کو نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی سے انتہائی عقیدت تھی اس کا مظہر آپ کی پنجابی زبان میں لکھی ہوئی ’سی حرفی عشق رسول‘ ہے۔ آپ کو اہل بیت عظام سے بھی بڑی محبت تھی جس کا ذکر ان کے کلام میں موجود ہے۔ یہ دونوں کتب حافظ میاں محمد نعمان مہتمم جامعہ فتحیہ کی زیر سرپرستی دارالمولفین (قائم شدہ 1954ء ) کے پلیٹ فارم سے تحقیق و تدوین کے ساتھ شائع کی جارہی ہیں۔
 حافظ صاحب کا طالب علموں کے ساتھ رویہ انتہائی مشفقانہ اور طریقہ تدریس اتنا دل موہ لینے والا ہوتا کہ جو تحصیل علم کے آتا وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے ہی جاتا۔ آپ سے ایک کثیر تعداد نے استفادہ کیا۔ آپ کے خاص تلامذہ میں مولانا نبی بخش حلوائی،مولانا حکیم نیک محمد نوشاہی، مولانا میاں محمد حسین اور حافظ فتح محمد عطار ہیں۔ حلوائی صاحب کے علاوہ باقی حضرات آپ کے اجل خلفاء میں سے بھی ہیں۔ حافظ میاں فتح محمد اچھروی ایک طویل عرصہ خلق خدا کو ظاہری و باطنی علوم سے منور کر کے شوال 1335ھ مطابق 1916ء خالق حقیقی سے جاملے۔

مزیدخبریں