اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس دیئے تحریک انصاف کوہم نےکہاتھاپارٹی الیکشن نہ کرائیں؟ اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے،بطوروزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثراندازہو رہے تھے، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے.ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے. جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئے انتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں.الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں. آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے.آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرےجنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکارکیا. صرف آئین پر رہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا.آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے. اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا.ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسزنہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی.الیکشن کس نے کرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہے تھے، الیکشن کرانے کیلئے سال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے. جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔