لاہور (خبرنگار خصوصی) نوائے وقت کی 70 ویں سالگرہ پر مختلف طبقات کے نمائندہ افراد‘ سیاستدانوں اور عام لوگوں نے سالگرہ پر ٹیلیفون کالوں کے ذریعے مبارکباد دیتے ہوئے نوائے وقت کو ملکی مفادات اور بقاءو سلامتی کا سب سے بڑا محافظ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ نوائے وقت ہی ہے جس نے ہر دور میں ڈکٹیٹروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جمہوریت کا عَلم بلند رکھا۔ اللہ تعالیٰ مجید نظامی کو صحت اور زندگی دے۔ نوائے وقت کی صورت میں دراصل یہ 17 کروڑ عوام کی آواز ہے جو کبھی دب نہیں سکتی۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازم چودھری محمد منیر نے کہا کہ مایوسی اور بے یقینی کے اس دور میں نوائے وقت ہی امید کا نام ہے۔ یہی وہ اخبار ہے جس نے آمریت کے دور میں جمہوریت کا عَلم اٹھایا۔ صعوبتوں اور قربانیوں کی تاریخ رقم کرکے تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ مجید نظامی کو صحت اور زندگی دے۔ وہ سیاستدان نہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ جوہر ٹاﺅن کے ناصر خان نے کہا کہ نوائے وقت کی تاریخ جرا¿ت و استقامت کی تاریخ ہے۔ یہ نظریہ پاکستان کا محافظ ہی نہیں‘ 17 کروڑ عوام کے جذبات کا ترجمان بھی ہے۔ وقت کی یہ آواز ہمیشہ حق اور سچ کا عَلم تھامے رکھے گی۔ گلشن راوی کے امجد تبسم نے کہا کہ نوائے وقت کی پالیسی اس امر کی گواہ ہے کہ نہ اس پر آمریت کا دباﺅ کارگر ہوا اور نہ وقت کے فرعون اس کی آواز پر اثرانداز ہوسکے۔ جب تک نوائے وقت موجود ہے پاکستان کے دشمن بھارت کے عزائم پورے نہیں ہوسکیں۔ کریسنٹ سکول کے طالبعلم میاں غنی نے کہا کہ نوائے وقت اور مجید نظامی کا کردار پاکستان کی نئی نسل کیلئے مشعل راہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوائے وقت پاکستان کی سوچ اور فکر کا عکاس کرتا ہے۔ نوائے وقت نظریہ پاکستان کا دوسرا نام ہے۔ انشاءاللہ نوائے وقت کی سوچ اور فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی بقاءو سلامتی کیلئے ہر طرح کی قربانی دینگے۔ اچھرہ سے بزرگ رہنماءعبدالوحید خان نے کہا کہ جب جب جہاں جہاں پاکستان کی بات ہوگی‘ وہاں نوائے وقت کا ذکر ہوگا۔ نوائے وقت نے اپنی پالیسی کے تسلسل کے ذریعے ثابت کیا کہ ادارے اور افراد دنیا کی دوڑ میں وہی کامیاب رہتے ہیں جو اپنے نظریات اور مفادات پر کاربند رہتے ہیں۔ طوفانوں اور بحرانوں کا سامنا کرنیوالے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ وحدت روڈ سے مرزا عبدالقیوم نے مجید نظامی اور نوائے وقت کے کارکنوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وقت نے ثابت کیا کہ جب سیاسی قیادتیں مصلحتوں کا شکار بن جائیں تو یہ نوائے وقت ہی ہے جس نے قوم کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ نوائے وقت جرات‘ ہمت‘ مجید نظامی استقامت اور ثابت قدمی کا دوسرا نام ہیں۔ اقبال ٹاﺅن سے شناور بیگ نے کہا کہ فوجی آمریتوں کے دور میں نوائے وقت کا کردار بحالی جمہوریت کیلئے اور جمہوری ادوار میں جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام پاکستان کیلئے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے مجید نظامی جیسے صحافی کا کوئی ثانی نہیں‘ ویسے ہی نوائے وقت کے کردار کو ہر حوالہ سے دوسرے اخبارات سے مختلف قرار دیا جاسکتا ہے۔ نوائے وقت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے کسی طوفان کی نذر ہونے کی بجائے طوفانوں کا رخ موڑا ہے۔ جوہر ٹاﺅن سے نادیہ عارف نے مجید نظامی اور نوائے وقت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یحییٰ خان نے اپنے عروج کے وقت سینئر اخبار نویسوں کو بلا کر اپنی تقریر کے بعد جب کہا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہے؟ تو مجید نظامی ہی تھے جنہوں نے جراتمندی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بڑی قومی خدمت نہیں ہوگی کہ آپ فوری طور پر بیرکوں میں واپس جائیں اور ملک و قوم کی جان چھوڑیں۔ نوجوان وکیل سید رئیس الدین نے کہا کہ مجید نظامی کی بدولت نہ صرف یہ کہ آج نظریہ پاکستان زندہ ہے بلکہ نوائے وقت اسکی ترویج میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ آزاد عدلیہ کے کردار اور ملک میں اداروں کی مضبوطی میں بھی نوائے وقت اور مجید نظامی کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی کارکن منظور ملک نے کہا کہ نوائے وقت نے ہمیشہ قومی ایشوز کو اجاگر کیا۔ اسی وجہ سے حکومتیں اس سے خوفزدہ رہیں۔ مجید نظامی نے آمریتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ماڈل ٹاﺅن سے عافیہ سرور نے نوائے وقت کو معاشرتی اقدار کا محافظ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر غلط رواج اور رجحان کیخلاف نوائے وقت نے مصلحتوں کا شکار بننے کی بجائے جرات سے آواز بلند کی اور یہی وجہ ہے کہ نوائے وقت آج ہر گھر کا اخبار ہے۔ صحافی محمد طاہر نے مجید نظامی اور نوائے وقت کو جرات کی تاریخ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اردو زبان لکھنے والوں کی جو نرسری تیار کی وہ آج پاکستان کی اخباری صنعت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے۔ جوہر ٹاﺅن سے رانیہ سلیم نے کہا کہ پاکستان کی نئی نسل کیلئے نوائے وقت ایسا سلیبس ہے کہ اس کا قاری ہمیشہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے جذباتی ہوتا ہے۔ نوائے وقت دراصل پاکستان اور نظریہ پاکستان کی آواز ہے جسے کوئی نہیں دبا سکتا۔