پاکستان .... منزل ِ مراد!

یہ رب کریم کا احسان عظیم تھا کہ اس نے برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو انتہائی زوال اور انحطاط کے دور میں علامہ ڈاکٹر سر اقبال مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جیسے صاحب بصیرت اور صاحب درد رہنما عطا کیے اقبالؒ جو کہ مفکر تھے ، جو ایک شاعر تھے جو دیدہ بینا کے مالک تھے وہ اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوںکو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا پیغام مسلسل دے رہے تھے۔ انہوں نے دسمبر 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر جنوبی ایشیاءکے مسلمانوں کے جدا گانہ قومی وجود کو بنیاد بناتے ہوئے ان کیلئے الگ ملک کا مطالبہ پیش کردیا۔ علامہ اقبال ؒکے خطبہ الہ آباد کو سامنے آئے د س سال ہی گزرے تھے کہ 23مارچ1940کو برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے میر کارواں محمد علی جناح کی قیادت میں منٹو پارک(موجودہ اقبال پارک) لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرار داد پاکستان منظور کر کے ایک الگ آزاد مملکت کے حصول کو باضابطہ طور پر اپنا قومی نصب العین قرار دیدیا۔ قرار داد پاکستان اپنی منظوری کیساتھ ہی برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے دلوں کی آواز بن گئی اور چشم فلک نے دیکھا کہ ہندو اور انگریز جو مسلمانوں کے الگ ملک کے مطالبے کو دیوانے کا خواب قرار دے رہے تھے اور اسکی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے سات سال کے اندر ہی تقسیم ہند کے منصوبے کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لئے الگ آزاد مملکت کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس کی قوموں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔یقیناً یہ مشیت ایزدی تھی منشاءالہی تھا۔ امر ربی تھا ،رب کریم کا احسان عظیم تھا اور اسکے پیارے حبیب ﷺ کی نظر کرم تھی کہ برصغیر جنوبی ایشیا میں جہاں مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک حکمران رہے تھے اور جہاں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن ، اعلی اخلاقی اقدار اور اسلامی طرز حکمرانی اور عدل و انصاف کی شاندار روایات قائم کی تھیں اور تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے ان مٹ نقوش چھوڑے تھے وہاں ان کا اقتدار ختم ہوا تو ان کے لئے اپنے قومی وجود کا تحفظ اور ملی تشخص کو برقرار رکھنا ہی مشکل ہوگیا تھا‘ انکا دین انکا مذہب اور انکی تہذیب و ثقافت بھی ستم کا نشانہ بننے لگی۔ اب انکے لئے اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا کہ وہ برصغیر جنوبی ایشیا کے جن خطوں میں اکثریت میں تھے ان خطوں کو ملا کر اپنے لئے ایک الگ آزاد مملکت کا مطالبہ کریں۔برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے الگ ملک حاصل کرنے کے مطالبے یعنی قیام پاکستان کے محرکات کے بارے میں جتنا بھی غور کیا جائے۔ سیاسی محرکات کو سامنے رکھا جائے ، معاشی اور اقتصادی اسباب کو بنیاد بنایا جائے فکری اور تہذیبی تصادم کو اہمیت دی جائے ،مسلمانوں کی مذہبی رواداری اور وسعت نظری پیش نظر رکھی جائے ،مسلمانوں اور ہندوﺅں کی باہمی آویزشوں پر نگاہ ڈالی جائے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ طویل دور حکمرانی کے اہم واقعات اور فتوحات پر نظریں دوڑائی جائیں اور انکی حکومت کے ختم ہونے کے اسباب کا جائزہ لیا جائے غرضیکہ کوئی بھی رخ ہو کوئی بھی پہلو ہو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی الگ قومیت انکا الگ تمدن اور انکا جداگانہ ملی اور مذہبی تشخص جسے عرف عام میںدو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے وہ بنیاد ہے جس کے تحت انہوں نے ایک الگ مملکت کے حصول کو اپنی منزل مراد قرار دیا۔پاکستان آج اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ وطن عزیز کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشیں زور پکڑ چکی ہیں۔ نسلی، صوبائی اور علاقائی تعصبات ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور ہمارے قومی وجود اور سلامتی کو حقیقی خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ ان حالات میں جی چاہتا ہے کہ تحریک پاکستان کی پر عزم اور ولولہ انگیز جدوجہد کے وہ روشن اور خوش کن لمحات لوٹ آئیں ۔ آج پاکستان کو نئے انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے ہماری قومی قیادت قدم قدم پر ٹھوکریں کھار ہی ہے اور قوم بھٹکتی پھر رہی ہے اللہ کرے ہمیں ایسی قیادت نصیب ہوجائے کہ وہ ملک و قوم کی اس ڈگمگاتی کشتی کو کنارے پر پہنچانے میں کامیاب ہوسکے۔ 

ای پیپر دی نیشن