جسم تھاعشقِ ستم ہم تیر کھا کر چپ رہے
حوصلہ ہر زخمِ دل کا آزما کر چپ رہے
کب گلابوں کی طرح چاکِ گریباں ہم رہے
ایک غنچے کی طرح محفل میں جا کر چپ رہے
خود فریبی کھا گئے جمہوریت کے نام پر
کب اندھیری غار میں خود کو گرا کر چُپ رہے
حق بیانی صاف گوئی جُرم ٹھہری جب کبھی
اپنی بپتا اشعاروں میں سُنا کر چُپ رہے
مشعل سوز جگر سے آنکھ پُرنم ہو گئی
روشنی انجم یہی رُخ پر سجا کر چُپ