راولپنڈی کے انتخابی معرکے

راولپنڈی قیام پاکستان سے اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنائے جانے تک چند لاکھ آبادی کا ننھا منا شہر تھا۔ وفاقی دارالحکومت کا جڑواں شہر بننے کے بعد راولپنڈی کی آبادی معیشت اور تعلیم کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ملی۔ اس وقت راولپنڈی ملک کا کراچی، لاہور، فیصل آباد کے بعد چوتھا بڑا شہر ہے۔ جہاں کل ووٹروں کی تعداد 26 لاکھ 3 ہزار 120 ہے جن میں 11 لاکھ 99 ہزار 496 خواتین اور 14 لاکھ 3 ہزار 624 مرد ووٹر ہیں۔ راولپنڈی کے ووٹر قومی اسمبلی کے 7 اور صوبائی اسمبلی پنجاب کے 14 ارکان کا انتخاب کریں گے۔ 1970ءمیں اس شہر کی قومی اسمبلی کی 4 اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں تھیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں ان کی تعداد بڑھا کر بالترتیب 5 اور 10 کر دی گئی اور الیکشن 2002ءمیں قومی اسمبلی کی 7 اور صوبائی اسمبلی کی 14 نشستیں ہو گئیں۔
1970ءکے عام انتخابات میں راولپنڈی سے ملک کے اس وقت چوٹی کے رہنما ائر مارشل (ر) اصغر خان مسلم لیگ ن کے موجودہ چیئرمین راجہ ظفرالحق اور جماعت اسلامی کے رہنما مولانا فتح محمد نے حصہ لیا اور ناکام رہے۔ 1970ءکا الیکشن مشرقی پاکستان میں یکطرفہ رہا تھا اور عوامی لیگ نے جھاڑو پھیر دیا تھا جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ راولپنڈی کی قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے جیت لیں۔ ائر مارشل اصغر خان اور مولانا فتح محمد کو پیپلز پارٹی راولپنڈی کے صدر خورشید حسن میر نے شکست دی جبکہ راجہ ظفرالحق پیپلز پارٹی کے کرنل حبیب خان سے ہار گئے۔ جماعت اسلامی کے اس زمانے کے بڑے رہنما میجر (ر) مصطفیٰ شاہین کو پیپلز پارٹی کے ملک جعفر نے ہرا دیا۔
1985ءکے غیر جماعتی الیکشن نے راولپنڈی سے پاکستان کو نئے سیاستدان دئیے جن کا ملک میں آج بھی سکہ چل رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے سبکدوش ہونے والے قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے اس وقت چوٹی کے رہنما چودھری نثار علی خان 1988ءمیں این اے 40 راولپنڈی سے پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اس زمانے کے معروف طالب علم لیڈر تھے۔ شیخ رشید نے بھی این اے 39 راولپنڈی سے الیکشن جیت کر قومی سیاست میں اپنا مقام حاصل کیا۔ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر شیخ صاحب نے اعلانیہ کہا کہ اگلے روز ہونے والے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ جوتے کی نوک سے اٹھا لوں گا مگر اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا اور وہ حاجی مشتاق کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ حالانکہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں انہوں نے راولپنڈی کے چوٹی کے رہنما سید اصغر علی شاہ کو شکست فاش دی تھی۔ 1988ءمیں شیخ رشید احمد نے پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ٹکا خان کو ہرایا۔ 1990ءمیں پیپلز پارٹی این اے 38 راولپنڈی میں ان کے مقابلے پر چودھری مشتاق حسین کو لائی مگر شیخ صاحب نے ان کو بہت بڑے مارجن سے شکست دی۔ 1993ءمیں پیپلز پارٹی شیخ رشید احمد کے مقابلے میں بلدیاتی سیاست میں ان کے پرانے حریف آغا ریاض السلام کو لے آئی۔ وہ 1988ءمیں رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے تھے۔ بحیثیت انسان بھی نفیس تھے لیکن شیخ رشید احمد کے سامنے وہ پانی بھرتے نظر آئے۔ شیخ صاحب نے 80 ہزار 758 ووٹ لئے جبکہ آغا صاحب 53 ہزار 841 ووٹ حاصل کر سکے۔
 1997ءمیں شہید بینظیر بھٹو نے اپنی پولیٹیکل سیکرٹری اور دوست ناہید خان کو شیخ رشید احمد کے مقابلے میں اتارا مگر وہ بھی بری طرح ہار گئیں۔ 12 اکتوبر 1999ءکی مشرف بغاوت کے بعد شیخ رشید احمد مسلم لیگ (ن) کی میڈیا کمیٹی کے سربراہ تھے مگر جی ایچ کیو سے لڑائی نہیں چاہتے تھے سو ان کی راہیں ”شریفوں“ سے جدا ہو گئیں۔ الیکشن 2002ءمیں شیخ رشید احمد نے این اے 55 راولپنڈی سکس میں مسلم لیگ (ن) کے سردار محمد طارق، پیپلز پارٹی کے آغا ریاض اسلام اور متحدہ مجلس عمل کے طارق منیر بٹ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی جبکہ این اے 56 راولپنڈی سیون میں مسلم لیگ (ن) کے سید ظفر علی شاہ، پیپلز پارٹی کے سردار شوکت حیات، متحدہ مجلس عمل کے ڈاکٹر افضل اعزاز، مسلم لیگ (ق) کی نیلوفر بختیار اور تحریک انصاف کے امیر محمود کیانی کو ہرا کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ انہوں نے چاہا کہ نواز شریف انہیں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر الیکشن جیتنے پر مبارکباد دیں اور وہ ان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) میں واپس شامل ہو جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ شیخ رشید احمد پرویز مشرف کی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اب عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں جا رہے ہیں۔ وہ عمران خان کی تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ دونوں اطراف سے کہا جا رہا ہے کہ ان کا انتخابی اتحاد ہو چکا۔ شیخ رشید نے شکست کا پہلا مزا 2002ءمیں چکھا جب وہ اپنی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی ایک نشست پر اپنے بھتیجے کو کامیاب نہیں کروا سکے جبکہ 2008ءمیں وہ پہلے مسلم لیگ (ن) کے جاوید ہاشمی اور ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ملک شکیل اعوان سے شکست کھا گئے۔ 1977ءکے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اپنے سابق ممبران قومی اسمبلی کرنل حبیب خان، مزدور لیڈر نذر کیانی، عبدالعزیز بھٹی اور خورشید حسن میر کی جگہ سید اصغر علی شاہ کو میدان میں اتارا اور چاروں ہی کامیاب ہوئے لیکن 26 مارچ 1977ءکو وجود میں آنے والی یہ اسمبلی 5 جولائی 1977 کو تحلیل کر دی گئی۔ تین ماہ نو دن کی مختصر زندگی پانے والی اس قومی اسمبلی کے انتخابات دھاندلی کے باعث زیر بحث نہیں لائے جاتے وگرنہ اس میں بھی بعض جگہ زبردست انتخابی معرکے ہوئے تھے۔
1990ءمیں سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے صاحبزادے اعجازالحق میدان سیاست میں وارد ہوئے۔ ان کا پہلا انتخابی معرکہ این اے 39 راولپنڈی 1988ءکے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ شاہد ظفر کے ساتھ ہوا جس میں اعجازالحق نے 87 ہزار 829 ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر کو پچھاڑ دیا جو کہ صرف 57 ہزار 130 ووٹ لے سکے۔ 1993ءمیں ان دونوں کے درمیان دوسرا انتخابی معرکہ ہوا اعجازالحق نے 87 ہزار 676 ووٹ لے کر راجہ شاہد ظفر 64 ہزار 655 ووٹ پر اپنی برتری قائم رکھی۔ 1997ءکے الیکشن میں ان دونوں کے درمیان تیسرا انتخابی معرکہ ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر 31ہزار 838 ووٹ لے پائے جبکہ مسلم لیگ ن کے اعجازالحق 87 ہزار 392 ووٹ لے کر جیت گئے۔ اعجازالحق کو مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے بعد الیکشن 2002ءمیں بری طرح شکست کا سامنا ہوا جب وہ صرف 4 ہزار 164 ووٹ لے سکے اور اس کے بعد انہوں نے اس حلقہ انتخاب سے الیکشن نہیں لڑا۔ جیتنے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار زمرد خان ایڈووکیٹ نے 31 ہزار 491 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ ظفرالحق 28 ہزار 805 ووٹ لے کر ہار گئے۔ مسلم لیگ (ق) کے راجہ بشارت نے 12 ہزار 676 ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2008ءکے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے 2002ءمیں یہاں سے صوبائی اسمبلی کے منتخب رکن ملک ابرار احمد نے الیکشن 2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر 58 ہزار 228 ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کے زمرد خان 33 ہزار 749 ووٹ کو پچھاڑ کر پچھلا ادھار چکا دیا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...