دونوں باپ بیٹا کمال کے آدمی تھے۔ دونوں اچھے منتظم اور قانون کے پابندتھے۔ دونوں بہترین جنگجو، تلوار باز اور شہہ سواربھی تھے، دونوں کو اپنے خاندان سے بہت پیار اور عوام سے انتہا کا انس تھا۔ رعایا دونوں کو سلطنت کا اثاثہ سمجھتی تھی اور دونوں ہی رعایا میں بے پناہ مقبول بھی تھے۔ باپ تین براعظموں پر پھیلی سلطنت کا شہنشاہ تھا تو بیٹااولاد میںسب سے بڑا اور فوج اور رعایا میں یکساں مقبول ہونے کی وجہ سے سلطنت کا اگلا وارث بننے کا سب سے مضبوط امیدواربھی تھا۔ دونوں باپ بیٹے میں پیار بھی بہت تھا، بیٹا باپ پر جان چھڑکتا تو باپ بھی بیٹے کو دیکھ کر سانس لیتا تھا۔ محبت اور شفقت کا یہ مثالی رشتہ حرم کے اندر اور باہر بہت سے لوگوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھتا بھی تھا۔ ایسے ہی لوگوں نے دونوں باپ بیٹے میں دراڑیں ڈال کر اختلافات کی دیواریں اٹھانا شروع کیں اور آہستہ آہستہ شہنشاہ کو یقین دلادیا کہ شہزادہ باغی ہوچکا ہے اور تخت پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔شہنشاہ فارس کی مہم سے واپسی پر قونیہ کے علاقے ”ایرگلی“ میں خیمہ زن تھا کہ شہزادے کے خلاف سازش تیار کرلی گئی۔طلب کرنے پر شہزادہ حاضر ہوا تو شہنشاہ کے خیمہ میں داخل ہونے سے پہلے اُسے مکمل طور پر غیر مسلح کردیاگیا۔ شہزادہ بے فکر تھا کہ وہ تو اپنے پدر کے پاس جارہا ہے، لیکن خیمہ میں داخل ہوتے ہی (گونگے اور بہرے دستوں پر مشتمل) شہنشاہ کے محافظوں نے شہزادے کو جھکڑ لیا، زور آور شہزادے نے خود کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن بیسیوں محافظوں نے شہزادے کو زمین پر گراکر اُس کی کی گردن میں پھندا ڈالا اور پھر کھینچ لیا۔ اپنے ہی بیٹے کی جان لینے والا یہ شہنشاہ ترکی کا سلطان سلیمان عالیشان جبکہ باپ کے حکم پر قتل ہونے والا یہ شہزادہ کوئی اور نہیں بلکہ خلافتِ عثمانیہ کے بانی سلطان سلیم کا پرتو شہزادہ مصطفی تھا۔ شہزادہ مصطفی کے قتل کا یہ اندوہناک واقعہ 1553ءمیں پیش آیا۔ 1554ءمیں ”آگیئر غسلین بسبیک“سلطنت عثمانیہ میں آسٹریا کا سفیرمقرر ہواتو اس واقعہ کے عینی شاہدین کی گفتگو بسبیک نے اپنی کتاب ”خطوطِ ترکی“ میں یوں رقم کی ”سلطان سلیمان نے شہزادہ مصطفی کے قتل کا منظر ایک باریک جالی دار کپڑے کے پیچھے سے دیکھا، آخری سانس لینے سے پہلے شہزادہ مصطفی نے جو جملہ کہا، اس نے ساری سازش کے تاروپور بکھیر کر رکھ دیے، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ، سلطان سلیمان کئی دن تک مصطفی کی لاش کے پاس بیٹھ کر روتا رہا، ترک ینی چری نے بغاوت کر دی، جس پربمشکل قابو پایا جا سکا“۔ سلیمان جیسے قانون پسند سلطان سے اِس طرح کی ناانصافی کی کسی کو بھی توقع نہ تھی کیونکہ شہزادہ مصطفی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کی گئیں نہ کوئی تفتیش ہوئی، مصطفی کو صفائی کا موقع دیا گیا نہ ہی انصاف کے بنیادی تقاضے پورے کئے گئے، سازشیوں کے جال میں پھنس کر سلیمان نے نہ صرف مصطفی جیسا ہیرا گنوا دیا‘ بلکہ عظیم عثمانی سلطنت کے زوال کی پہلی اینٹ بھی خود ہی رکھ دی۔
اس واقعہ نے یورپ کے ادب اور فنون کو بھی بہت متاثر کیا‘ اس سانحہ پر ہزاروں مضامین اور کتابیں لکھی گئیں، فلمیں بنیں، المیہ ڈرامے سٹیج کئے گئے، موسیقاروں نے طربیہ دھنیں شہزادہ مصطفی کے نام کیں اور شاعروں نے مرثیوں اور نوحوں کے دریا بہا دئیے۔ اس ایک واقعہ نے یورپ کے صرف ادب اور فنون کو ہی متاثر نہیں کیا‘ بلکہ نظام انصاف پر بھی بڑے گہرے اثرات اور نقوش مرتب کئے۔ اہل یورپ نے اس واقعہ کے بعد اپنے پراسیکیوشن کے عمل کو بہت بہتر بنایا اور بہت جلد انصاف پر مبنی ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ ”ہزاروں گناہگار بھی سزا سے بچ جائیں تو کوئی بات نہیں، لیکن کسی ایک بے گناہ اور معصوم کو بھی سزا نہیں ملنی چاہئے“۔ یورپ نے تو صدیوں پہلے ہی پراسیکیوشن کا نظام بہتر بناکر انصاف پسند معاشرے کی منزل حاصل کر لی، لیکن پاکستان صدیوں بعد بھی وہیں کھڑا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حالت تو اِس حوالے سے زیادہ پتلی ہے، جہاں انصاف کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھے بغیر بے گناہوں کو پھانسی کے پھندے پر بھی چڑھا دیا جاتا ہے، گواہوں کی اہلیت جانچے بغیر اُن کے الزامات سچ مان کر کبھی وزیراعظم کو تختہ دار تک لے جایا جاتا ہے تو کبھی ملک بدری کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ تفتیشی عمل بھی تو کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں تفتیش کا ناقص نظام‘ فرانزک شہادتوں پر زیادہ توجہ نہ دینا‘ پراسییکیوٹر کا غیر موثر کردار‘ پولیس اور پراسیکیوٹر میں عدم تعاون‘ وسائل کا فقدان‘ ناتجربہ کاری اور تربیت کی کمی پراسیکیوشن کی بنیادی کمزوریاں ہیں۔ اِن کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے ادارہ جاتی سطح پر پراسیکیوشن کی خدمات سے متعلق اصلاحات کے علاوہ پراسیکیوٹرز کے اختیارات سے متعلق قوانین میں ترمیم کی سخت ضرورت ہے، بہتر تنخواہیںاور مراعات‘ مستقل بنیادوں پر پیشہ ورانہ تربیت کی فراہمی، تمام متعلقہ شعبوں کے درمیان مثالی تعلقات کیلئے مناسب نظام اور طریقہ کار وضع کرنے اور تفتیشی عمل کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی بھی اتنی ہی ضرور ت ہے، لیکن پراسیکیوشن کا یہ عمل درست کرنا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس میں عوام‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جہاں بھی نظام میں خرابی نظر آئے اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ دوست ممالک کے جی آئی زی جیسے ادارے تو اس سلسلے میں ہاتھ بٹا ہی رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم خود اپنی زمین پر انصاف کے پودے کو سیراب کرنے کیلئے کتنی تگ و دو کررہے ہیں؟
قارئین محترم! عجیب بات ہے کہ سلطان سلیمان اور شہزادہ مصطفی دونوں بے مثال نثرنگار اور صاحب طرز شاعر بھی تھے‘ سلیمان کا تخلص محبی جبکہ شہزادہ مصطفی کا تخلص مخلصی تھا‘ جو دونوں باپ بیٹوں کے کردار کو بھی ظاہر کرتا تھا‘ باپ محبت کا دریا تھا تو بیٹا خلوص کابحر بیکراں تھا‘ لیکن سولہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے پراسیکیوشن سسٹم کی خرابیاں 6اکتوبر 1553ءکا ”ایرگلی“ کا سانحہ نہ روک سکیں۔ شہزادہ مصطفی نے آخری سانس لینے سے پہلے پورا زور لگاکر پکارا تھا ”آقا‘ انصاف! آقا‘ انصاف!“۔ جب انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے تو ”آقا‘ انصاف! آقا‘ انصاف!“ کی آوازیں آتی ہی رہتی ہیں، پانچ پانیوں کی اس سرزمین پر تو یہ آوازیں بہت بلند سنائی دیتیں ہیں، کیونکہ پراسیکیوشن کی کمزوریوں کی وجہ سے نجانے کتنے مخلصی‘ اپنے ہی محبی کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ عوام‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کو اس حوالے سے جتنا متحرک کرنے کی ضرورت آج ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی کیونکہ جیلوں میں پڑے گلنے سڑنے والے ہزاروں افراد سے لے کر لاپتہ کئے جانے والے ہر مخلصی کو انصاف چاہئے اور یہ انصاف قانون کی حکمرانی اور آزاد اور تربیت یافتہ پراسیکیوشن کے بغیر ممکن نہیں۔
مُخلصی کو انصاف چاہئے!
Mar 24, 2014