تحریکِ پاکستان کی جدوجہد

Mar 24, 2014

بریگیڈیئر (ر) شمس الحق قاضی

منسٹری آف فاننس میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ جناب ممتاز حسن سیکرٹری جنرل تھے ۔ ممتاز حسن سے میری ذاتی دوستی تھی۔ ممتاز حسن کی اطلا ع کے مطابق پنڈت نہرو نے بھی اس تجویز پر صاد کیا تھا ‘ اس وقت دیسی افسر بمشکل بریگیڈئیر کے عہدے پر پہنچے تھے۔ مسلمان افسروں میں بریگیڈئیر محمد اکبر خان میرٹھ میں سب ایریا کمانڈر اور نوابزادہ آغا محمد رضاGHQ میرٹھ میں انڈین آرمی کے تمام سلیکشن بورڈوں کے ڈاریکٹر جنرل مقرر تھے۔بریگیڈئیر نذیر احمد کہیں شمال میں اور بریگیڈئیر ٹوانہ مدراس کے قریب آودی بیس میں متعین تھے ۔مسلم لیگ کے پیش نظر اس وقت مسلمانوں کو من حیث القوم ہندو کی دائمی غلامی سے بچانے کے علاوہ دلی میں موجود چوٹی کے مسلما ن لیڈروں اورمسلمان آبادی خصوصاً مسلمان سرکاری ملازمین کی حفاظت کا سوال بھی تھا‘ اسلئے قائد اعظم کو پنڈت نہرو کی ملٹری کُو یعنی فوجی قبضے والی سازش کا مقابلہ بھی درپیش تھا۔
واضح رہے کہ اس وقت ہمارے دفتر میں ماتحت عملہ علی اعلانRSSیعنی راشڑ یہ سوایم سیوک سنگھ میں شامل تھے اورRSS کی یونیفارم سفید قمیض، خاکی نیکر، پائوں میں سافٹی (ربڑ کی چپلی) پہنتے تھے۔
بہرحال ممتاز حسن صاحب اورالطاف حسین صاحب نے قائد اعظم کے حکم پر میری ڈیوٹی لگائی کہ دلی کے قریب موجودسینئر مسلمان افسروں کی مسلم لیگ ہائی کمان سے ملاقات کرائی جائے۔ انڈین ایئر فورس کے مسلمانوں میں سینیئر ترین افسر ونگ کمانڈر محمد خان جنجوعہ دلی میں موجود تھے یہ پاکستان کے فدائی تھے ‘اسلئے انہیں کسی ترغیب کی ضرورت نہ تھی ۔ بلوچ رجمنٹ کے کرنل گلزار احمدجنجوعہ کانپور میں (7 Baloch) رجمنٹ کی کمان کررہے تھے ۔ ان سے ہمارا رابطہ پہلے سے تھا۔ دلی بلاوے پر انہوں نے بڑے جوش سے کہا قائد اعظم کا حکم ہو تو میری پلٹن کو کوئی مائی کا لال دلی تک نہیں روک سکتا۔ ان دونوں کو دلی میں مسلمانوں کی حفاظت کا پلان بنانے کی ذمّہ داری سونپی گئی ۔ بریگیڈئیر گلزاراحمد ممتاز دانشور اور کئی کتابوں کے مصنّف آزادی کے بعد راولپنڈی کی گلستان کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ پنڈی سازش کیس والے محمد اکبر خان اس وقت ڈیرہ وون ملٹری اکیڈمی میں کرنل تھے اور ہماری اطلاع کے مطابق وہ بھی پاکستان کے مضبوط شیدائی تھے۔ کرنل محمد ایوب خان (بعد میں فیلڈ مارشل بنے)اس وقت ڈیرہ وون سلیکشن بورڈ کے پریذیڈنٹ تھے۔ انگریز حکومت کے بڑے مداح اور وفادار مشہور تھے۔ اسلئے کرنل ایوب خان کو ہم نے مسلم لیگ ہائی کمان سے ملاقات کیلئے نہیں بلایا۔ یہ ایوب خان GHQ میرٹھ میں بریگیڈئیر آغا محمد رضا اور سب ایریا کمانڈر میرٹھ بریگیڈئیر محمد اکبر خان دونوں کے ماتحت تھے۔
بہرحال سینئر افسروں کی مسلم لیگ کی ہائی کمان سے ملاقات کرانے کی باری آئی تو ممتاز حسن صاحب نے سب سے پہلے بریگیڈئیر محمد اکبر خان کی لیاقت علی خان صاحب سے ملاقات کرانے کا حکم دیا ۔بریگیڈئیر اکبر خان پوری انڈین آرمی میں مسلم اور غیر مسلم سب افسروں میں سب سے سینئر تھے۔یعنی GHQآرمی لسٹ میں انکا نام اول نمبر پر تھا۔ میرٹھ میں ایریاکمانڈر ہونے کی وجہ سے کافی با اثر تھے اور اسی لئے مجھے خاص طور پر پہلے ان کو قائد ملت کے پاس لانے کو کہا گیا تھا۔ چنانچہ میں ان کو اسمبلی ہاؤس میں فنانس منسٹر چیمبر میں جناب لیاقت علی خان کے پاس لے گیا ۔ بریگیڈئیر اکبر کی لیاقت علی خان سے کوئی گھنٹہ بھر ملاقات رہی اور لنچ بریک پر ختم ہوئی۔ہم دونوںسٹاف کار کی طرف جا رہے تھے کہ وزراء میں سب سے پہلے پنڈت نہرو کی کار روانہ ہوئی۔ اس پر کانگریس کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس وقت وزراء سرکاری جھنڈے یونین جیک کے بجائے اپنی پارٹی کا جھنڈا لہراتے تھے۔ بریگیڈئیر اکبر نے نہرو کی کار دیکھی تو خاص طور پر اسمارٹ سیلوٹ کیا۔ کانگریسی جھنڈے کو یہ سیلوٹ مجھے ناگوار گزرا۔ اسکے بعد بریگیڈئیر صاحب نے ڈرائیور کوپنڈت نہرو کی رہائش  oad 17-York چلنے کو کہا‘ میں نے کہا جناب ابھی تو آپ نے لیاقت علی خان سے ملاقات کی ہے پھر پنڈت نہرو کے گھر جانے کا کیا مقصد ہے۔ فرمانے لگے: ’’برخوردار یہ گورنمنٹ ہیں‘ ان سے ملاقات ضروری ہے‘ پھر وہاں رفیع احمد قدوائی یوپی کے ہوم منسٹر بھی آئے ہوئے ہیں ‘گڑھ مکثیتر میں کافی گڑ بڑ ہے‘ میرٹھ کا ایریا کمانڈر ہونے کی حیثیت سے ان کو لاء اینڈ آرڈر کی رپورٹ کرنی ہے۔ مجھے یہ بات کچھ اچھی نہ لگی لیکن انڈین آرمی کے سب سے سینئیر افسر ہونے کی حیثیت سے بریگیڈئیر اکبر خان کو مستقبل کی انڈین آرمی میں کانگریس سے جو خوش آئند توقعات ہو سکتی تھیں ‘ ان کا مجھے احساس تھا‘ البتہ میں حیران تھا کہ اس وقت جبکہ پاکستان بننا تقریباً یقینی ہو گیا تھا ‘ بریگیڈئیر صاحب جلی حروف میں نوشتۂ دیوار کیوں نہیں پڑھ رہے ۔ بہر کیف پنڈت نہرو کے بنگلے پر پنڈت نہرو یا قدوائی صاحب کوئی بھی موجود نہ تھا۔ البتہ مسز اندراگاندھی نے ہمارا استقبال کیااوربریگیڈئیر صاحب نے کال بک پر دستخط کیے‘اور ہم رخصت ہوگئے۔اس متذبذب کیفیت میں بریگیڈئیر صاحب کے انٹرویو کا نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہ تھا‘ تا ہم دوسرے روز ممتاز حسن صاحب اور الطاف حسین صاحب نے علیحدہ علیحد ہ مجھے بتایا کہ جناب لیاقت علی خان متاثر نہیں ہوئے ‘ یا یوں کہیے کہ منفی متاثر ہوئے۔ اور بلکہ الطاف حسین صاحب نے بتایا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب کے خیال میں اکبر خان تو بالکل Dufferہے۔ ان حالات میں قائد اعظم کو خیال ہوا کہ نوجوان افسروں کے فوجی جوانوں سے directتعلقات ہوتے ہیں اسلئے بہتر ہو گا کہ نوجوان افسروں سے معلوم کیا جائے کہ عام فوجیوں کے پاکستان کے بارہ میں کیا رائے ہے۔ چنانچہ آپنے الطاف حسین صاحب کو حکم دیا کہ دلی میں موجود نوجوان مسلمان افسروں کی قائد اعظم سے ملاقات کرائی جائے۔ اس سلسلہ میں ہمیںکرنل کول اور ہندو افسروں کی Activityکے بارہ میں کچھ کچھ علم تھاا سلئے ہم GHQمیں مسلمان افسرآپس میں تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان ملاقاتوں نے باقاعدہ محفل کی صورت اختیار کرلی۔ کرنل گلزار احمد صاحب نے اپنی کتاب ـ’’ارشادات قائد اعظم ـ ـ‘‘ میں اس محفل کا ذکر کیا ہے راقم کو اس محفل میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ میرا مسلم لیگ ہیڈکوارٹر سے رابطہ تھا۔ جسکی بعض تفاصیل اپنی محفل تک پہنچا دیتا تھا۔

مزیدخبریں