سرکریک‘ پانی اور دیگر مسائل حل ہو جائیں تو تنازعہ کشمیر طے ہونے کیلئے فضا بہتر ہو جائیگی : سرتاج عزیز

Mar 24, 2014

لاہور (آئی این پی) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ہماری پہلی ترجیح ملکی سلامتی، خود مختاری کا تحفظ اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانا ہے ‘ہم کسی ملک میں مداخلت نہیں کریں گے، معیشت کی مضبوطی ہمارا فوکس ہو گا ‘نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کا مقصد بھی دفاعی اداروں اور سویلین حکومت کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ہم آہنگی بڑھانا ہے‘ بھارت میں نئی آنے والی حکومت سے بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیاجائیگا ‘سرکریک ‘پانی اور دیگر ایشوز کو حل کرلیاجائے تو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فضا بہتر ہو جائیگی‘ایران گیس پائپ لائن منصوبے کیلئے وعدے کے مطابق 500ملین ڈالر فراہم کر دے تو امریکی پابندیاں اثر انداز نہیں ہوںگی اور منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کیلئے کم از کم 30ماہ ضروری ہیں‘ہم نے افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے بھارت اور افغانستان کرلیں تو خطے میں امن و خوشحالی یقینی ہو سکتی ہے‘ پرویزمشرف کافیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہونا ہے، کسی ملک کی جانب سے مشرف کی رہائی کیلئے دبائو کے بارے میں نے کبھی نہیں سنا‘مئی یا جون میں وزیراعظم نوازشریف کا دورہ ایران متوقع ہے‘ کسی بھی اسلامی ملک کو ہتھیاروں کی ایکسپورٹ کرنا کوئی انہونی بات نہیں لیکن کسی ملک کو فوج فراہم کرنے کا کوئی ارارہ نہیں‘ ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سرتاج عزیز نے کہاکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کامنصوبہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے  ویسے بھی ماضی کی حکومت نے یہ معاہدہ کیا تو اس وقت معاہدے کی تکمیل کیلئے صرف 19ماہ کا وقت رکھا گیا جس کے دوران یہ منصوبہ مکمل ہونا ممکن ہی نہیں تھا میں سمجھتا ہوںکہ اب بھی اگر اس منصوبے پر کام شروع کیا جائے تو یہ قریباً30ماہ کے دوران مکمل ہو گا اور اس کیلئے امریکی پابندیوں کی وجہ سے عالمی ادارے ہمیں فنڈز دینے کیلئے تیار نہیں لیکن ایران جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو اپنے حصے کا کام کرنے کیلئے 500ملین ڈالر دیگا تو اگر یہ وہ رقم دیدے تو یہ منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی کو آزاد اور خودمختار بنانے سے پہلے ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں  حکومت کی پہلی ترجیح پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ اور اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے کیونکہ ہم اپنے ملک کو مضبوط بنا کر ہی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔2010ء کے بعدریمنڈ ڈیوس سمیت دیگر بڑے واقعات کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی ہوئی جس کی وجہ سے سٹرٹیجکمذاکرات بھی رک گئے لیکن اب امریکہ نے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے لیکن سب سے ضروری ہے کہ دونوں ملکوںکا ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے۔ 5یا 6ماہ کے دوران افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں، افغانستان کے معاملے پر بھی ہم کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم اپنے بارڈر کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تاکہ غیرقانونی طور پر پاکستان میں آنے کا بھی سلسلہ بند ہوسکے، جنوبی علاقوں میں 7میں سے 6ایجنسیوں پر حکومت کا کنٹرول ہوچکا ہے۔ صرف شمالی وزیرستان کی ایجنسی باقی ہے، وہاں پر بھی مذاکرات کے ذریعے معاملات کو بہتر کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے بہتر اور مضبوط تعلقات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایران کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں بنا سکتے، مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف مئی یا جون میں ایران کا دورہ کریں گے جس سے یقینی طور پر دونوں ملکوں میں تعلقات مزید مضبوط ہوںگے۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا معاملہ وہاںپر نئی حکومت کے قیام تک موخر کر دیاگیا ہے،  بی جے پی سمیت جو بھی حکومت آئیگی اس کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائیگی اور ہم بھارت کے ساتھ ویسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے 1999ء میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت چھوڑ کرگئی۔

مزیدخبریں