حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ عادات و خصائل میں پیارے نبی ﷺ کا نمونہ اطہر

مبشر عزیز


حضر فاطمہ الزہرا ؓ رسول کریم ؐ کی پیاری بیٹی ہونے کے علاوہ ایک بیوی اور ماں تھیں جن کی مبارک گود میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ جیسی عظیم ہستیوں نے پرورش پائی۔اللہ تعالیٰ کی عبادت، شوہر کی اطاعت، بچوں کی تربیت، صبر و شکر، سخاوت اور اخلاق کے اعتبار سے آپ کا مقام و مرتبہ سب عظمت والا اور بلند ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی عورت ایسی نہیں گزری اور نہ آئندہ گزرے گی جو حسب و نسب میں فاطمۃ الزہراؓ کی برابری کا دعویٰ کر سکے۔ًایک دفعہ رسول کریمؐ نے فاطمۃ الزہراؓ سے پوچھا: جان پدر عورت کے اوصاف کیا ہیں؟جواب دیا ’’ابا جان عورت کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کی تابعداری کرے، شوہر کی خدمت کرے، اولاد پر شفقت کرے، اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت کو چھپائے، نہ خود غیر وں کو دیکھے، نہ غیر اس کو دیکھ پائے۔ حضورؐ یہ جواب سن کر بے حد خوش ہوئے۔نبی اکرمؐ کو حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے بہت محبت تھی جب حضرت فاطمہ الزہراؓ تشریف لائیں تو نبی اکرمؐ کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ تھام لیتے اور پیشانی کو بوسہ دیتے۔ آپ کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دیتے۔ رسول اللہؐ جب بھی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے رخصت اور واپسی پر سب سے پہلے آپ سے ملنے جاتے۔
دنیا کی چار عورتیں افضل ہیں: مریمؓ، آسیہؓ، خدیجہؓ اور فاطمہؓ۔حضرت علیؓ کو بچپن سے ہی آپؐ نے تربیت اور کفالت کے لئے لے لیا تھا اور اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ وہ حضرت فاطمہؓ سے عمر میں صرف پانچ برس بڑے تھے، اس لئے اکھٹے کھیلے۔جب حضرت علی ؓ سے عقد کیلئے نکاح طے پا گیا تو آنحضرت محمد ؐؐ نے حضرت انس ؓ کو حکم دیا کہ جائو ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، عبدالرحمنؓ بن عوف، طلعہ زبیرؓ اور دیگر مہاجرین والفار کو بلا لائو۔ آنحضرتؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ بازار سے خوشبو لائیں، وہ بازار سے عمدہ خوشبوئیں لے آئے اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے پڑھ دیا گیا۔ پھر سب نے دعائے خیر و برکت مانگی اور حضورؐ نے چھوہارے تقسیم فرمائے۔ حاضرین میں شہد کا شربت اور کھجوریں تقسیم کی گئیں۔ نکاح کے وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر اٹھارہ برس اور حضرت علیؓ کی عمر چوبیس برس تھی۔ عین رخصتی کے وقت جب ام المومنین سیدہ ام مسلمہؓ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے: اے کاش! آج اپنی بیٹی کی رخصتی پر حضرت خدیجہ الکبریٰؓ بھی زندہ ہوتیں تو وہ ان کے سر پر دست شفقت رکھتیں۔ یہ بات کہی ہی تھی کہ آپؐ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، حضورؐ کی آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح جاری ہو گئے، تب آپؐ نے فرمایا: خدیجہ ؓ خدیجہؓ ہی تھیں۔ اس نے میرے لئے بڑے مصائب برداشت کئے۔ اس موقع پر حضرت فاطمہؓ کو بھی محبت کرنے والی ماں کی یاد آئی۔ ماں کی یاد نے انہیں اتنا بے قرار کر دیاکہ وہ گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگیں کہ آپ کا دوپٹہ آنسوئوں سے بھیگ گیا۔ آپؐ نے اپنی لخت جگر کو سینے سے لگایا اور فرمایا۔ آپ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں، اے بیٹی فاطمہؓ یہ رونا کیسا؟ میں نے تمہاری شادی ایسے شخص سے کی ہے جو علم حلم میں سب سے افضل اور اسلام لانے میں سب سے اوّل ہے۔حضرت محمدؐ نے اپنی پیاری بیٹی کو گھر کے استعمال کے لئے ایک بان کی چارپائی، چمڑے کا گدا جس کے اندر کھجور کے پتے تھے۔ ایک چھاگل، ایک مشکیزہ، دو چکیاں اور دو گھڑے، دو چادریں، دو بازو بند نقرئی،ایک جا نماز دیا۔ حضرت فاطمہؓ عادات و خصائل میں رسول اکرمؐ کا بہترین نمونہ تھیں۔ صورت و سیرت میں رحمت دو عالمؐ سے کمال درجہ مشابہت رکھتیں تھیں۔ اس لئے انہیں طاہرہ، مظہرہ، رافیہ مرفیہ اور زاکیہ کے القاب سے بھی پکارا گیا۔ آپ گھر کا تمام کام کاج خو د کرتی تھیں، چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دینے سے کپڑے میلے ہو جاتے تھے۔ مشکیزے میں پانی بھر کر لاتیں، جس کی وجہ سے جسم پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے تھے۔ چولہے کے پاس بیٹھے بیٹھے سب لباس سیاہ ہو جاتا تھا۔آپ انتہائی صابر و شاکر ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والی نیک پرہیز گار خاتون تھیں۔فقر و فاقہ میں ان کا پورا ساتھ دیا۔کئی کئی دن فاقے میں بسر ہو جاتے تھے جو پھٹے پرانے کپڑے مل جاتے پہن لیتی تھیں لیکن صبر و شکر کرنے میں بے مثال تھیں۔ایک دن دونوں میاں بیوی آٹھ پہر سے بھوکے تھے، حضرت علی ؓ کو کہیں سے مزدوری میں ایک درہم مل گیا۔ رات ہو چکی تھی، ایک درہم کے جو کہیں سے خرید کر گھر پہنچے۔ فاطمہ نے ہنسی خوشی اپنے خاوند کا استقبال کیا۔ آپ سے جو لے کر چکی پیسی روٹی پکائی اور علی المرتضیٰ کے سامنے رکھ دی، جب وہ کھا چکے تو خود کھانے بیٹھیں۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت حضور پاکؐ کا یہ قول مبارک یاد آیا کہ ’’فاطمہ دنیا کی بہترین عورت ہے‘‘۔ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا، چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ہے۔ اب تو پانی بھرتے بھرتے سینہ درد کرنے لگا۔ آج کل دربار نبوت میں بہت سے قیدی آئے ہوئے ہیں، تم جائو اور ایک خادمہ آنحضرتؐ سے مانگو۔ پھر آپ والد بزرگوار کی خدمت میں گئیں۔ آنحضرتؐ نے دریافت فرمایا ’’کیا حال ہے، کیسے آئیں، کیا کوئی کام ہے؟‘‘۔آپ نے عرض کیا، کوئی کام نہیں، صرف سلام کے لئے حاضر ہوئی ہوں۔ آداب و سلام بجا لا کر اپنے گھر واپس آگئیں، جن باتوں کے اظہار کی ضرورت تھی اور جس گزارش کے لئے گئی تھیں، شرم کے مارے اس کا اظہار نہ کیا۔جب گھر آئیں تو حضرت علیؓ نے کہا: تم جس کام کے لئے گئیں تھیں کیا کرکے آئیں؟آپ نے جواب دیا، میں سلام کرکے چلی آئی، میری شرم و حیا نے اجازت نہ دی کہ میں کوئی سوال کرتی۔ پھر دونوں میاں بیوی آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اپنی تکالیف بیان کیں، اور ایک خادمہ کے لئے درخواست کی۔ سرور کائناتؐ نے فرمایا ’’بخدا میں تم دونوںکو کوئی قیدی خدمت کے لئے نہیں دے سکتا، کیا میںاہل صفہ کے حق کو تلف کر دوں اور ان کو بھول جائوں جو فقر و فاقہ کی بدولت نان شبینہ کے محتاج ہیں اور میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے کہ میں ان لوگوں کے لئے صرف کروں امداد کروں سوائے اس کے ان قیدیوں کو فروخت کروں اور اس قیمت سے اہل صفہ کی ضروریات پوری کروں، جب یہ دونوں ایک منصفانہ اور اصولی جواب سن کر گھر واپس تشریف لے گئے۔ رات کو حضورؐ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: کہ تم جس چیز کے خواہش مندتھے اس سے بہتر ایک چیز میں تم کو بتاتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ و الحمد اللہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت سبحان اللہ و الحمد اللہ تیس تیس بار، اللہ اکبر چونتیس بار پڑھا کرو۔ یہ عمل تمہارے لئے خادم سے پڑھ کر ثابت ہو گا۔ یہ خادم سے زیادہ اچھی چیزیں ہیں، یہ سن کر حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے راضی ہوں۔ایک مرتبہ آنحضرتؐ کسی غزوہ سے واپس تشریف لائے۔ حضرت سیدہ فاطمہؓ نے سطور خیر مقدم گھر کے دروازوں پر پہرے لگائے اور امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو چاندی کے کنگن پہنائے، جب حضرت محمدؐ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو یہ سب دیکھ کر واپس لوٹ گئے، حضرت فاطمہؓ واپسی کا سبب سمجھ گئیں۔ بہت دلگیر ہوئیں اور رونے لگیں۔ اتنے میں حضورؐ کے غلام ابو رافع پہنچ گئے، رونے کا سبب پوچھا۔ حضرت فاطمہؓ نے ماجرا سنایا تو حضورؐ نے کنگن اور پردے کو ناپسند فرمایا ہے۔حضرت فاطمہؓ نے دونوں چیزوں کو فوراً حضورؐ کی خدمت میں بھیج دیا اور کہلا بھیجا کہ میں نے انہیں راہ خدا میں دے دیا۔ حضور پاکؐ بہت خوش ہوئے، اپنی بچی کے حق میں دعا ئے خیر و برکت مانگی اور ان اشیاء کو بیچ کر قیمت فروخت اصحاب صفہ کے اخراجات میں صرف کر دی۔حضرت فاطمہؓ الزہرا نہایت فیاض، سخی اور غریب پرور تھیں، آپ کے گھر سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لوٹتا تھا ۔ایک مرتبہ ایک غریب عورت آپ سے ملنے آئی، اس کے ساتھ بچہ بھی تھا، اس نے بچے کو نہایت بوسیدہ قمیض پہنائی ہوئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ الزہرا کی نظر جب بچے کی پھٹی پرانی قمیض پر پڑی تو آپ کو بہت افسوس ہوا۔ آپ حضرت امام حسنؓ کی طرف بڑھیں، وہ سو رہے تھے۔ آپ نے انہیں جگایا، ان کی قمیض اتاری اور اس غریب بچے کو پہنا دی، یہ دیکھ کر عورت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ بولی، آپ نے تو میری حاجت بتانے سے پہلے ہی پوری کر دی۔ایک مرتبہ کسی نے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا کہ چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہو گی تو انہوں نے فرمایا کہ تمہارے لئے صرف ایک اونٹ ، لیکن اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو سارے ہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دوں۔ایک دفعہ رسول کریمؐ آپ کے ہاں تشریف لائے، دیکھا کہ آپ اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئی ہیں اور اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ آپ آٹا گوند رہی تھیں اور زبان پر کلام اللہ کا ورد جاری ہے۔ رسول کریمؐ یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا:فاطمہ! دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کر اور آنحضرتؐ کی دائمی مسرت کا انتظار کر، اللہ تمہیں نیک اجر دے گا۔

ای پیپر دی نیشن