توشاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

آرمی چیف، جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف جاری آپریشنز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن اور خوشحالی کے لئے ہر قیمت پر دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ 23 مارچ کی مسلح افواج کی پریڈ کے موقع پر جنرل راحیل شریف بہت پر اعتماد نظر آ رہے تھے۔ اپنا ذمہ دارانہ عہدہ سنبھالنے سے لے کر یوم پاکستان کی تقریب تک جنرل راحیل شریف ایک مثالی، محب وطن اور بہادرانہ کردار میں نظر آئے ہیں۔ یہ بات باعث تقویت بھی ہے اور قابل فخر بھی۔پاکستان کی تاریخ کا بڑا حصہ مارشل لاء کے سائے میں گزرا ہے اور پاکستان میں جمہوریت پسندوں کی طرف سے تواتر کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے اور بصد اصرار و تکرار کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہترین ہے لیکن آپ نہ سچ کو جھٹلا سکتے اور نہ حقائق کو مسخ کر سکتے کیونکہ پاکستان میں جمہوریت دراصل ایک بدترین آمریت کے روپ میں نازل رہی ہے جبکہ آمریت نے ہر بار احساس دلایا ہے کہ آمریت محض ایک ڈرائونا نام ہے وگرنہ آمریت میں ہم نے ہر بار جمہوریت کا مزا لوٹا ہے۔ جس جمہوریت کا ڈھنڈورہ پاکستان میں پیٹا جاتا ہے وہ جمہوریت تو کبھی پاکستان میں رائج ہی نہیں ہوئی۔ ہر انسان یا ہر شے اسم بامسمیٰ ثابت نہیں ہوتی۔ شیطان کا جو بھی نام رکھ دیں، وہ شیطان ہی رہے گا۔ جمہوریت یقیناً ایک نہایت موثر اور قابل تقلید طریقہ ہے لیکن پاکستان میں جس ٹائپ کی جمہوریت نافذ کی جاتی ہے وہ تو بادشاہت، ملوکیت اور آمریت سے بڑھ کر کوئی چیز ہے جس میں ناانصافی، استحصال، مطلق العنانیت، اقربا پروری، عدم مساوات، کرپشن اور دھاندلی جیسے مذموم مقاصد پروان چڑھتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت سے تو دلوں پر ہیبت طاری ہوتی ہے۔ یہ سب مجھے اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ گذشتہ روز یوم پاکستان کی تقریب دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ فوج میں صرف غریبوں کے بچے جانیں دینے کے لئے جاتے ہیں یا پھر وہ نوجوان جو حب الوطنی، بہادری اور غیرت و حمیت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ گذشتہ روز بہادر فوج کے نوجوانوں کی محنت و عظمت کے شاہکار اور ضرب عضب میں جام شہادت نوش کرنے والے شہیدوں کے متعلق سوچتے ہوئے جہاں اپنی پاک فوج پر فخر اور مان بڑھ رہا تھا وہاں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ ہمارے کسی حکمران، سیاستدان اور نام نہاد لیڈروں کا کوئی بیٹا، بھائی بھتیجا، بھانجا فوج میں نہیں ہے۔ ان کی حب الوطنی اور خدمات کی داستان صرف تقریروں، بیانات اور باتوں تک محدود رہتی ہے۔ شہزادہ چارلس کا جواں سال بیٹا ولیم دس سال تک فوج میں اپنی خدمات انجام دیتا رہا ہے وہ بھی افغانستان جیسے علاقے میں لڑتا رہا ہے۔ شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی محبت کی یادگار، ملکہ برطانیہ کا چہیتا پوتا اور ولی عہد خود بہ نفس و نفیس جنگوں میں حصہ لیتا رہا۔
یہ ہوتی ہیں زندہ قومیں اور زندہ سوچیں، افسوس کہ نوازشریف، آصف زرداری، شہبازشریف، فضل الرحمان، عمران، اسحاق ڈار، محمود خان اچکزئی، خواجہ آصف ، احسن اقبال، فاروق ستار، قاضی حسین احمد، سراج الحق سمیت کسی کا بھی بیٹا یا بیٹی فوج میں نہیں ہے۔ کوئی بزنس مین بن رہا ہے تو کوئی سیاستدان مگر کوئی بھی فوج کا حصہ نہیں بنا۔ ان لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ دس دس گاڑیاں آگے پیچھے، پورے پورے سکواڈ، حفاظتی دستوں کے ساتھ، مکمل پروٹوکول کے ساتھ شاپنگ، فنکشن یا سیر کے لئے جاتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھئے تو سکندر اعظم کا باپ جو اپنے عہد کا نامور اور طاقتور بادشاہ تھا۔ اس نے سکندر اعظم کی کم سنی میں ہی فوجی تربیت شروع کر دی تھی۔ سکندراعظم نو عمری میں مہینوں اپنے فوجی اتالیق کے ساتھ جنگوں بیابانوں میں مشکل اور کٹھن زندگی کے ساتھ لڑنے کی تربیت حاصل کرتا تھا تبھی تو 33 سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر کے دکھا دی اور ہمارے لیڈروں کے لڑکے 33 سال کی عمر میں آدھی دنیا کی سیر کر لیتے ہیں اور چار چھ شادیاں، پندرہ بیس افیئرز اور بیس بچیس گاڑیاں بدل لیتے ہیں۔ برطانیہ فرانس روس جرمنی اٹلی یونان کے علاوہ ایران شام، عراق مصر اور ہندوستان میں بادشاہوں کے لاڈلے شہزادے بھی بارہ برس کی عمر سے جنگی تربیت حاصل کرنے لگتے تھے اور جنگوں میں آگے بڑھ کر دشمن کی صفوں میں چیر ڈالتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد سے تاریخ کی ورق گردانی کر لیجئے کہ کس حکمران کا بیٹا فوجی بنا اور اس نے جنگ میں جام شہادت نوش کیا شہادت کی تعریف و توصیف کرنیوالے ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے بیٹوں، بیٹیوں کو اس عظیم منصب پر فائز کیوں نہیں کرتے۔
شہادت صرف غریب یا متوسط کلاس کے نوجوانوں کے لئے نیکی ہے یہ ہے ہمارے ہاں جمہوریت کا اصلی روپ کہ عیش اور کیش اپنے لئے… تکالیف اور مصائب اور مشکلات غریبوں کے لئے قائداعظم ثانی بننے کا شوق نواز، شہباز اور عمران سمیت ہر لیڈر کو ہے لیکن ان کی طرح اصول پسندی اور مشکل پسندی ان لیڈروں کی فطرت میں ہے ہی نہیں قائداعظم تو اپنی اکلوتی بیٹی سے محض اس بات پر خفا ہو گئے تھے کہ دینا جناح نے ایک پارسی سے شادی کر لی تھی قائداعظم نے اپنی بیوی کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری شادی نہیں رچائی تھی حالانکہ رتی جناح کی وفات پر قائداعظم 63 برس کے نہیں بلکہ بمشکل پچاس سال کے تھے۔ پاکستانی قوم یونہی نہیں فوجیوں پر مرتی اور یقین کرتی… فوج ہر برے وقت میں پاکستان کو بچاتی ہے اور سرحدوں کی حفاظت میں جان گنواتی ہے۔ ہمارے فوجی شاہین صفت ہیں وہ محلوں اور کاروں یا طیاروں میں نہیں بلکہ پہاڑوں میں بسیرا کرتے ہیں اور پہاڑوں کی طرح مضبوط ہیں وہ ٹشو پیپر نہیں کہ انہیں ہاتھ لگائو تو میلے ہو جائیں۔ اے فوج تجھے سلام!!

ای پیپر دی نیشن