23مارچ 1940کو جب قرارداد پاکستان پیش کی گئی تو اس کا مقصد تھا ایک الگ وطن کا قیام ایک ایسے وطن کا قیام جس میں انگریز کی غلامی اور ہندومعاشرے کے اثرات سے نجات حاصل کر کے ایک ایسی قوم کی تشکیل کی جائے جو اپنے دماغ سے سوچے سمجھے اور اپنے لئے ترقی کے راستے قرآن کی روشنی میں متعین کرے-بے شک یہ علامہ اقبال جیسے عظیم فلسفی ، دانشور اور شاعر کا خواب تھا اور یہ خواب ایک دن میں نہیں دیکھا گیا تھا اسکے پیچھے تو مسلمانوں کا ،وہ شاندار ماضی تھا جو قصہ پارینہ بن چکا تھا اور اس کو واپس لانے کا خواب سر سید احمد خاں سے علامہ اقبال تک کئی آنکھوں نے دیکھا -علامہ اقبال کی خوش قسمتی کے قائد اعظم جیسا لیڈر آگے بڑھ کر انکے خواب کو تعبیر دے گیا اور ایک آزادوطن قائم کرگیا-ماضی میں مسلمان جب تک اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہے زمین آسمان کی نعمتیں ان پر نچھاور ہوتی رہیں-کونسا ایسا شعبہ زندگی تھا جہاں مسلمانوں نے اپنی کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑے،طب ،کیمسٹری ،فزکس،جغرافیہ ،الجبرا وغیرہ ہر جگہ مسلمانوں نے اپنے نشان ثبت کئے -صرف ملکوں کو فتح نہیں کیا بلکہ لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر بھی حکومت کی -لیکن جب یہ مسلمان تفرقے میں پڑا تو گویا اللہ کی رسی بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور یہ گم گشتہ راہ ہو گیا -منزل تو دور کی بات ہے منزل کی طرف جانے والے راستے کی پہچان بھی اس سے جاتی رہی -سر سید احمد خان سے لیکر علامہ اقبال تک بہت سے مسلمان لیڈر اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ،ان کا خیال تھا کہ اس قوم کو جب موزوں حالات ملیں گے تو یہ خوب پنپنے گی یہ سایہ دار شجر کی صورت ابھرے گی جس کے سایے میں تمام اقلتیں بھی امن و سکون سے زندگی گزاریں گی -یہ جو گوشہ پاک پاکستان کے نام سے حاصل کرنے کی تمام جدوجہد تھی اسکے پیچھے یہی سوچ کار فرماتھی -
14اگست 1947ء کو جب مسلمانوں نے پاکستان کے نام سے یہ مادر وطن حاصل کر لیا تو اب موقع تھا کہ اس پاک دھرتی کے باسی اس رفعت گزشتہ کو حاصل کر سکیں جو ان کی میراث تھی لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے ایک ایسی قوم کی تشکیل ضرورت تھی جو قوت،اخوت اور تنظیم کی بہترین مثال ہو -اس طرح کی قوم کو تشکیل میں تین ادارے بہت اہم کردار ادا کر سکتے تھے ماں ،استاد اور ---مذہبی تعلیم دینے والے -
ماں ،استاد اور مبنر کا کردار کسی قوم کی تشکیل میں بہت اہم ہوتا ہے -سب سے پہلے ماں ہوتی ہے جو بچے کی کردار سازی کرتی ہے بلکہ بچے کی فطرت میں نیکی اور بدی کا عنصر ڈالنے میں بھی ماں کا اہم کردار ہوتاہے -اگر قرآن ہمیں حضرت مریم ؑ کی والدہ کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انہوں نے نا صرف حضرت مریم ؑکو بلکہ آگے سے ان کی اولاد کو بھی شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیا تھا تو آج کی مائیں کیوں نہیں ایسا کر سکتیں کیوں بہنیں اپنے بچوں کو شیطان کے شر سے بچاتیں اور اللہ کی پناہ میں دیتیں- زبانی طور پر بھی اور عملی طور پر بھی کیوں نہیں اپنے بچوں کو سچے اور سیدھے راستوں پر چلنے کی تربیت دیتیں کیوں نہیں انہیں امانت، دیانت اورشجاعت کا درس دیتیں کیوں نہیں انہیں فرض شناس انسان بنائیں جو زندگی میں اپنے تمام رولز کے ساتھ انصاف کر سکے-اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتر مائیں ہی بہترین قوم کی تشکیل دے سکتیں ہیں-
ماں کے بعد قوم کی تشکیل میں استاد کا کردار اہم ہو تا ہے -استاد کا کام تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی ہوتا ہے ایک اچھا استاد بچے کوعلم کے ساتھ ساتھ زندگی کے جدید تقاضوں کے ساتھ باوقار طریقے سے ہم آہنگ ہونے کی تربیت بھی دیتا ہے -بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنا ،ہمت ، محنت اور دیانتداری سے آگے بڑھنا اور منزل کے حصول کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا ایک اچھے استاد کی دی ہوئی وہ تعلیم وتربیت ہوتی ہے جو نا صرف اسکے شاگردوں کی زندگیوں میں کامیابیاں حاصل کرنے کی ضامن ہوتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں اسکے دورس نتائج مرتب ہوتے ہیں -آج ہمارے معاشرے کو صرف لائق فائق انسان نہیں چاہیے بلکہ انسانیت کے بہترین اوصاف رکھنے واہے لوگ چاہیے-جو ہمارے لئے تھنک ٹینک کا کام کریں ہماری منزل کاتعین کریں اور ہمیں ایسے لیڈر چاہیے جو بہترین انسانی اوصاف کے حامل ہوں اور ہمیں ہماری منزل تک رہنمائی کریں جس کا خواب 23مارچ 1940کو دیکھا گیا تھا-