خوف ڈر ۔ توجہ ہٹاؤ ۔ فرار

پاکستان بننے کے وقت سیاسی لیڈر شپ ایماندار تھی۔ افسران محنت کش Dedicated پاکستان کی نئی سلطنت کو کامیاب کرنے کیلئے بیتاب تھے۔ لیکن ان دنوں مرکزی حکومت ہر چیز امپورٹ کرنے کیلئے پرمٹ دیتی تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پاکستانی دانشور قائداعظم محمد علی جناح کو ملنے گئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ قائداعظم کچھ پریشان نظر آتے ہیں انہوں نے قائداعظم سے پوچھنے کی جسارت کر ہی لی کہ آپ پریشان کیوں ہیں۔قائداعظم نے بتایا کہ فضل الرحمان جو بنگالی مرکز میں منسٹر تھے، تجارت کا قلمدان انکے پاس تھا انہوں نے دو پرمٹ اپنے دوستوں کیلئے لے لئے ہیں،اسکو یا وہ پرمٹ واپس کر دینے چاہئیں یا وزارت سے استعفے دے دینا چاہئے۔ یہ تھا قائداعظم کا ایمانداری کا معیارجس کی وہ سیاستدانوں سے بھی امید رکھتے تھے۔ اس طرح بغیر کرسی‘ میز‘ دفتر بغیر کاغذ قلم دوات پاکستان کی مرکزی حکومت کراچی کی بیرکوں چل رہی تھی، مہاجر لُٹے پُٹے بھارت سے پاکستان آرہے تھے جن کیلئے گھر، نان نفقہ ضرورت تھی لیکن بھارت نے پاکستان کے حصہ کا روپیہ بھی ادا نہیں کیا تھا اور اسلحہ بھی پاکستان کے حصے کا پاکستان کو نہیں دیا تھا لیکن اس وقت افسران تن من دھن اور لگن سے کام کر رہے تھے، ایک ہی نظریہ تھا کہ پاکستان کو کامیاب کرانا ہے لیکن وقت گزرنے کے بعد حالات بھی بدلتے گئے۔
سیاسی سازشیں جنم لیتی رہیں، ایسٹ پاکستان میں ہندو کافی تعداد میں رہ گئے تھے، تعلیم کے محکمہ میں انکی اکثریت تھی، وہ بنگالیوں کی برین واشنگ کرتے رہے۔ جب ایسٹ پاکستان کی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر قتل ہوا۔ پنجاب میں یہاں ممتاز دولتانہ اور نواب افتخار ممدوٹ کی چپقلش شروع ہوئی۔ قائداعظم کو خدا نے زیادہ دیر زندہ رہنے کی مہلت نہ دی اور لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیااور جب وہ قتل کئے گئے ان کی جیب میں صرف ایک روپیہ تھا، ناظم الدین پرائم منسٹر بنے لیکن ممتاز دولتانہ خود وزیراعظم بننے کے چکر میں پڑ گئے۔ سندھ کی حکومت تین چار ماہ چلتی تھی اور پھر بدل دی جاتی تھی۔ ایوب خان نے پہلے سکندر مرزا سے مارشل لگوایا اور پھر سکندر مرزا کو ملک بدر کر کے خود عنان حکومت سنبھال لی۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو سیاست سے الگ کرنے کیلئے ایبڈو کا قانون بنایا۔ عدالت میں جانے کی بجائے اکثر سیاستدان سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ سہروردی متبادل سیاستدان تھے حکمرانوں کے، انہوں نے کورٹ میں ایبڈو کا مقدمہ لڑا۔ چودھری نذیر احمد ساہیوال کے مشہور وکیل اور گوجرانوالہ کے رہائشی تھے اور مرکز کے وزیر تجارت بھی رہے تھے جب عدالت عالیہ میں چودھری نذیر احمد نے سہروردی کیخلاف کرپشن کے چارج لگائے تو سہروردی نے عدالت میں قہقہ لگایا اور کہا کہ:
My Lord ch Nazir talks about honesty.
مطلب یہ تھا کہ وہ تو خود Corrupt تھا وہ ایمانداری یا کرپشن کا کیا ذکر کریگا۔ بہرحال عدالتوں نے بھی ایوب خاں کا ساتھ دیا، تمیز الدین جو سپیکر قومی اسمبلی تھے انکی ہائی کورٹ میں درخواست خارج کر دی اور جسٹس منیر صاحب نے نظریہ ضرورت کا پرنسپل لگا کر اگر مارشل لاء کامیاب ہو تو وہ جائز ہوتا ہے کا اصول وضع کیا جواب تک چل رہا ہے۔ حمود الرحمن نے عاصمہ جیلانی کیس اور ضیاء الرحمان کیس میں اسے بدلنے کی کوشش کی لیکن مشرف کے مارشل لا کو ارشاد حسن جسٹس کے بینچ نے جائز قرار دیکر پرانا قانون اور اصول پاکستان میں رائج کر دیا۔جب سیاستدان یا حکمران پاکستان کے تخت پر بیٹھتے ہیں تو انکو ایمانداری اپنی اور جانیوالوں کی کرپشن یاد آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ پاکستان کے تخت پر بیٹھ کر جائز یا ناجائز لوٹ مار کر لیتے ہیں تو انکو خوف آنے لگتا ہے۔
ایوب کے زمانے میں نواب کالا باغ گورنر تھے انکو جنرل ایوب نے بلوایا اور کہا کہ چودھری محمد حسین جو ڈائریکٹر اینٹی کرپشن تھے اسکو نکال دو کیونکہ سنا ہے کہ وہ حکمرانوں کیخلاف کرپشن کے کیس تیار کرتے رہتے ہیں اور جب حکومت بدلتی ہے وہ نئے حکمرانوں کو یہ کہ جناب یہ کیسز ہیں جانیوالے حکمرانوں کے اگر اجازت ہو تو شروع کر دیں۔نواب کالا باغ نے جواب دیا کہ جناب وہ اچھا کہتا ہے خود دانت مارتا ہے۔ بہت کارآمد ہے اب اسکی ضرورت ہے۔ جانے سے پہلے اسکا گلہ دبا دینگے۔ جنرل ایوب خاں نے نواب کالا باغ کو کہا کہ اچھا محمد حسین کو کہو کہ مجھے آکر ملے۔ جب چودھری محمد حسین ایوب خان کو ملے تو ایوب خاں نے انہیں دیکھتے ہی کہا ’’او محمد حسین تم تو چوہے لگتے ہو تم سے لوگ کیوں ڈرتے ہیں۔‘‘ محمد حسین نے فوراً کہا، حضور مجھ غریب سے کون ڈرتا ہے لوگ اپنے اعمال سے ڈرتے ہیں۔ حکمرانوں کا دولت اکٹھی کرنے کے بعد خوف فطری ہے۔
ایوب خاں کے زمانے میں چودھری محمد حسین اینٹی کرپشن کے انچارج اور چودھری بدر دین DSP ہوتے تھے لیکن ان سے صدر‘ گورنر‘ وزرائ‘ افسران بہت ڈرتے تھے، اسکے نام سے کانپتے تھے لیکن ان کا توڑ بخت خاں ریٹائرڈ DIG لیاقت علی خاں کے قتل میں مشہور ہونیوالے پولیس آفیسر کو نواب کالا باغ نے Rehabilitation کی غلط الاٹمنٹ کا انچارج بنایا ہوا ہے جو چودھری محمد حسین کے سخت خلاف تھے اور وہ چودھری محمد حسین پر غلط الاٹمنٹ کے کیس بناتے رہتے تھے لیکن دونوں کی لگامیں نواب کالا باغ کے پاس ہوتی تھیں۔ اس وقت چودھری قادر بخش اینٹی کرپشن کے کیسز کی سماعت کیلئے مجسٹریٹ مقرر تھے۔ ایک چودھری قادر بخش اور چودھری محمد حسین پورے مغربی پاکستان میں خوف کی علامت ہوتے تھے۔ ہر سیاستدان ہر سرکاری ملازم ان سے ڈرتا تھا لیکن اب 22 گریڈ کے افسران NAB اور ایف آئی اے کے انچارج ہیں۔ NAB کا سربراہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت سے تعینات ہوتا ہے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن