بہت اہل اور اہل دل برادرم ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری نے مجھے نارنگ منڈی میں آنے کے لئے دعوت نہیں دی تھی۔ پھر مجھے یہاں کس نے بلایا تھا۔ یہاں مجھے مرحوم حضرت پیر سید فاضل شاہ بخاریؒ کی طرف سے بلاوا تھا۔ یہ بلاوے دلوں کو وصول ہوتے ہیں۔ امریکن شاعر ایذرا پاونڈ نے کہا تھا۔ وہ مقناطیس کہاں گیا جو دلوں کو دلوں کی طرف کھینچتا تھا۔ وہ مقناطیس اللہ والوں کے پاس ہوتا ہے۔ ذوق و شوق کے راستوں پر آرزو اور جستجو کے چراغ جلتے ہیں تو ان کی روشنی دل کی منزلوں کا پتہ دیتی ہے۔ سب اندر سے روشن ہو رہا تھا۔
برادرم عارف سیالوی مجھے اپنی گاڑی میں ڈال کے ایسے ہی کسی راستے پر لے چلے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ وہ میرے بھائی ہیں اور پیر بھائی بھی ہیں۔ یہی رشتہ مفتی محمد رمضان سیالوی سے بھی ہے۔ وہ داتا گنج بخش کی مسجد کے خطیب ہیں۔ میرا روحانی تعلق سیال شریف سے ہے۔ میرے دادا جہان خان ذیلدار موسیٰ خیل ضلع میانوالی اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ وہ امیر آدمی نہ تھے وڈیرے بھی نہ تھے۔ وہ اپنی علمیت اور روحانیت کی وجہ سے بڑے مرتبے کے آدمی سمجھے جاتے تھے۔ ان کا مقام اور احترام لوگوں کے دلوں میں بہت زیادہ تھا۔
مجھے ایک بہادر آدمی کی بات نہیں بھولتی جو اس نے بابا جہان خان کے جنازے میں کہی تھی۔ وہاں جنازے میں اس آدمی کا جانی دشمن بھی تھا۔ کسی نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ آج تمہارے لئے بدلہ لینے کا دن ہے۔ اس نے تمہارے باپ کو دن دیہاڑے قتل کر دیا تھا۔ اس نے کہا انتقام لینے کے دن بہت آئیں گے آج سردار کا جنازہ ہے۔ یہاں کوئی گڑبڑ نہیں ہونا چاہئے۔
عارف سیالوی صاحب کی گاڑی نارنگ منڈی جا رہی تھی مگر میں برادرم ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری کے گھر جا رہا تھا۔ شہر بھی ہوتے ہیں تاریخ بنانے والے۔ شہر میں کوئی ایک گھرانہ ایسا ہوتا ہے جو اس کی پہچان بنتا ہے۔ میں تو نارنگ منڈی میں کسی کو نہیں جانتا ڈاکٹر بخاری سے تو لاہور میں بھی ملاقات ہو جاتی ہے تو میں انہیں ملنے کے لئے لاہور سے دور کیوں چلا آ رہا تھا یہ تو کوئی اور شخص ہو گا۔ ہر شخص کے اندر ایک اور شخص ہوتا ہے۔ بس آدمی کو اپنے اندر اترنا آتا ہو۔ جوں جوں ہم نارنگ منڈی کے قریب ہو رہے تھے۔ مجھے روحانی کیفیتوں میں ڈوبا ہوا بخار چڑھ رہا تھا یہ حرارت اور روشنی میرے تن من میں کئی چراغ جلاتی جا رہی تھی۔ میں اندر سے روشن ہو رہا تھا۔
ہم گئے ہوئوں کی جستجو میں زندگی بھر مصروف رہتے ہیں مگر منزل پر پہنچتے ہیں جب مر جاتے ہیں۔ مرنے اور امر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری اپنے والد مرحوم ولی کامل سید محمد فاضل شاہ بخاری کا دن منا رہے تھے۔ مرنے والوں کے پاس کیا راز ہوتے ہیں کہ ان کی یاد ہمیشہ آباد رہتی ہے
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
یہاں نارنگ منڈی میں سید فاضل شاہ بخاری کا عرس منایا جا رہا تھا اور صرف ایک شانداری روحانی ولولوں سے بھری ہوئی تقریب ہو رہی تھی۔ یہاں ہر آدمی ایک اہم آدمی تھا نمایاں شخصیات میں پیر کبیر علی شاہ موجود تھے اور ڈاکٹر بخاری کے چچا پیر سید امیر محمد شاہ بخاری کی محفل میں موجودگی پیر سید فاضل شاہ بخاری کے ماننے والوں کے لئے اطمینان کا باعث تھی۔ پیر سید فاضل شاہ بخاری کے جانشین اور سجادہ نشین ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری ہیں مگر وہ اپنے چچا محترم کی پوری عزت مندی کا ولولہ انگیز مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہاں ڈاکٹر بخاری کے بھائی سید شاہد رضا بخاری، سید علی رضا بخاری، سید طیب رضا بخاری اور سید فیض الحسن شاہ بخاری سرگرم اور مستعد تھے۔ ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری میزبان تھے مگر مہمان بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے سید محمد علی حیدر رضا بخاری نے بڑے جذبے اور محبت سے نعت پڑھی کہ محفل میں ایک سماں بندھ گیا۔ وہ اپنے دادا سید فاضل شاہ بخاری کے ہمشکل ہیں۔ اللہ اسے اپنے جد امجد کا ہمراز بھی کرے۔ ان کی آواز میں راز و نیاز اور سوز و ساز کی کیفیتیں تڑپتی ہیں۔ ساری محفل درود و سلام کی سرمستیوں سے بھر گئی۔
مفتی محمد رمضان سیالوی نے علمی وجاہت کے ساتھ خطاب کیا۔ لوگوں نے ان کے طرز تقریر کو بہت پسند کیا۔ محفل سے پیر کبیر علی شاہ نے بہت جوش و جذبے سے خطاب کیا۔ ان کی قادرالکلامی اور لفظ و خیال کی تکرار سے لوگ بہت متاثر ہوئے خطابت پر پورا عبور جنہیں حاصل ہو۔ وہ محفل پر چھا جاتے ہیں۔ پیر صاحب کی گفتگو میں روحانی ہمسفری کے کئی مقامات آتے ہیں۔
اس دوران صوبائی وزیر اوقاف عطا محمد مانیکا تشریف لے آئے۔ ان کے ساتھ بہت پرانا رشتہ ہے۔ ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں اکٹھے تھے۔ راوین برادری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ مانیکا صاحب دردمند دل رکھتے ہیں۔ روحانی دنیا سے منسلک شعبے کا وزیر ایسا ہی دل والا آدمی ہونا چاہئے۔ انہیں یہاں نارنگ منڈی میں دیکھ کر دل خوش ہوا۔ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے عظیم بخاریوں نے نارنگ منڈی کو جذبوں کی نیرنگ منڈی بنایا اور پھر اسے ایک روحانی منڈی میں بدل دیا۔ میں برادرم عارف سیالوی کا ممنون ہوں کہ وہ مجھے اس انوکھی بستی میں لے آئے۔ برادرم ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری کے ساتھ لوگوں کی محبت اور عقیدت دیکھ کر بھی میرا دل بھیگ بھیگ گیا۔
میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی نے عجب مستی میں یہ شعر کہا ہو گا
جیہڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لئیاں مل
اوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھل
ہر بستی کا اپنا ایک ولی ہوتا ہے۔ دل والے عظیم بخاریوں نے اپنے شہر کو ایک زندہ شہر بنا دیا ہے۔ یہاں تھوڑی دیر کے لئے آنے والا اپنے شہر دل کی سیر بھی کر سکتا ہے۔