تعصب، خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، ہر حوالے سے ایک انتہائی منفی رویہ ہوا کرتا ہے۔ انسانوں کی بے پناہ اکثریت مگر جبلی طورپر کسی نہ کسی تعصب میں مبتلا ہونے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایک منفی رویے کی ایسی پذیرائی کی وجہ سے وہ سہولت ہے جو تعصب کا شکار ہوئے ذہنوں کو تلخ حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد ان کو بدلنے کی مشقت سے محفوظ رکھتی ہے۔
نائن الیون کے واقعات ہوئے تو مسلم دُنیا اور خاص کر پاکستان کے چند بہت ہی عالم بنے لوگوں نے اپنے ایمان کی روشنی سے وہ ”سازش“ دریافت کرلی جو اسرائیل کی موساد نے بہت سوچ بچار کے بعد نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کی صورت میں پائیہ تکمیل تک پہنچائی۔ اس سازش کا مقصد امریکہ میں ایسی فضاءپیدا کرنا تھا جو وہاں کی حکومت کو اسلام اور ”اس کے اصولوں کی روشنی میں“ افغانستان میں قائم ہوئی ”خلافتِ طالبان“ کے خلاف فیصلہ کن جنگ پرآمادہ کرسکے۔
نائن الیون کی وجہ سے افغانستان پر ایک خوفناک جنگ یقینا مسلط ہوئی۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کو مگر حاصل کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب ہم ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے۔ اپنی ذہنی توانائیوں کو ہم نے بلکہ False Flagنامی ایک تھیوری کے فروغ کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس تھیوری کے مطابق نیویارک، بمبئی اور حال ہی میں پیرس میں ہوئی دہشت گردی کی وارداتیں درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی دشمن غیر ملکی ایجنسیاں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے رچاتی ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرا کر بدنام کیا جائے۔
مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرا کر غیر ملکی ایجنسیاں بالآخر حاصل کیا کرنا چاہتی ہیں؟ اس سوال کا معقول جواب مجھے آج تک نہیں مل پایا۔ زیادہ اصرار کروں تو ”مغرب زدہ لبرل“ ہونے کے طعنے سہنا پڑتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میں ہرگز ”مغرب زدہ“ نہیں۔ دُنیا کے کسی بھی حصے میں چلاجاﺅں تو دال چاول اور آلو گوشت کھائے بغیر چین ہی نہیں آتا۔ لاہور میں خوانچہ فروش اور ریستوران کے ملازم میرے ساتھ اُردو میں بات کریں تو چڑجاتا ہوں۔ کئی معاملات پر میری پوزیشن تقریباََ بے لچک ہے جو ”لبرل“ لوگوں کا خاصہ نہیں ہوا کرتی۔
تعصب، بدقسمتی سے اب مگر مسلم دُنیا تک ہی محدود نہیں رہا۔ امریکہ کے سفید فام لوگوں کے دلوں میں جو سوچ کئی دہائیوں سے ابل رہی تھی اب ڈونلڈٹرمپ کے ذریعے کھل کر عیاں ہورہی ہے۔ یورپ میں بھی مسلم دشمنی کا لاوا کئی برسوں سے پک رہا ہے۔ ہمیں اس کی لیکن کچھ زیادہ خبر نہیں۔ برطانیہ کی نوآبادی ہونے کی وجہ سے ہم یورپ سے عملاََ ناواقف ہی رہے۔ فرانس، سپین، ہالینڈ اور پرتگال کے سامراجی روپ سے ہم مکمل طورپر بے خبر ہیں۔ اسی بے خبری کے باعث ہم ہرگز اس وحشت کا اندازہ نہیں لگاسکتے جو منگل کے روز برسلز میں ہوئے دہشت گردی کی ہولناک وارداتوں کے بعد اس خطے کے تمام ممالک کی عمومی سوچ پر حاوی ہوجائے گی۔ فوری طورپر اس کا نشانہ وہ بدنصیب شامی ہوں گے جو ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملک پر کئی برسوں سے مسلط خانہ جنگی سے گھبرا کر کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچ کر مختلف یورپی ممالک میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔ جرمنی وہ واحد ملک تھا جس نے ان کی مصیبتوں کا انسانی بنیادوں پر جائزہ لے کر ان کا مداوا کرنا چاہا۔ اب اس ملک کو بھی شامیوں کے بارے میں کوئی کلمہ خیر کہنے کی جرا¿ت نہیں ہوگی۔
بات فقط بے کس ومجبور شامیوں تک محدود رہے تو شاید برداشت کرہی لی جائے۔ مسئلہ مگر اب ان تمام مسلمانوں کی بقاءاور تحفظ تک پھیل گیا ہے جو کئی نسلوں سے مختلف یورپی ممالک اور خاص طورپر فرانس کے باقاعدہ شہریوں کی صورت رہ رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے یورپ کے چند کھلے ذہن والے نرم دل رہ نماﺅں نے ان مسلمانوں کو Mainstreamمیں لانے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔ برسلز کے بعد ایسے لوگوں کی بات اب سننے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوگا۔ یورپ میں بسے مسلمانوں کو اپنے تحفظ اور بقاءکی جنگ لڑنا ہوگی اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ جنگ محض سیاسی اور فکری جدوجہد تک محدود رہے۔
برسلز کے بعد یورپ میں بسے مسلمانوں کی بقاءاور تحفظ کے سوال کو طالبان یا داعش کے ساتھ جڑی نام نہاد مسلم انتہاءپسندی کے خانے میں ڈالنا دانشوارانہ بددیانتی ہوگی۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یورپی اور خاص کر فرانسیسی استعمار نے اپنی نوآبادیوں میں بڑی وحشت کے ساتھ وہاں کے باسیوں کو “مہذب“ بنانا White Manکا ذمہ (Burden)قرار دیا تھا۔ ”نیم وحشی غلاموں“ کو ”مہذب انسان“ بنانے کے لئے استعمار نے جو ہتھکنڈے اختیار کئے انہیں ایک افریقی دانشور فرانزفینن نے کئی دہائیاں پہلے خوب سمجھ لیا تھا۔
اس کی ایک مشہور کتاب ”افتادگان خاک“ کے عنوان سے 1970ءکی دہائی میں ہمارے ہاں بہت مشہور ہوئی تھی۔ دیباچہ اس کا مشہور فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر نے لکھا تھا۔ ترجمہ اس کتاب کا سجاد باقر رضوی نے کیا تھا جسے لاہور کے ایک معروف سیاستدان میاں افتخارالدین کے بیٹے نے ”نگارشات“ کے نام سے قائم ہوئے طباعتی ادارے کے ذریعے بہت ہی جدید اور خوب صورت انداز میں چھاپاتھا۔فینن بنیادی طورپر ایک نفسیاتی معالج تھا۔ اس کے پاس جو مریض آتے ان کے بغور مطالعے کے بعد اس نے Black Skin White Masksنامی ایک کتاب لکھی تھی۔ ذہنی امراض کی ٹھوس علامات کے بغور مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچا کہ فرانسیسی استعمار کی غلام نوآبادیوں میں بسے انسانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ”گوروں جیسا“ ہونے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ ایک مکمل طورپر مختلف معاشرے میں پلا بڑھا سیاہ فام جس کی اپنی ثقافتی قدریں کئی صدیوں میں پروان چڑھیں ”گوروں جیسا“ مگر ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی ”گوروں جیسا“ ہونے کی تمنا اور خواہش بلکہ اس کے دل میں بالآخر تلخیوں کا ہجوم جمع کردیتی ہے۔ اس تلخی کو وہ پہلے خود پر اور بعدازاں اپنی بیوی اور بچوں پر تشدد کے ذریعے مسلط کرنے سے بالآخر مکمل طورپر اکتایا ہوا سیاہ فام گوروں کو اپنا Otherسمجھ کر ”تم نہیں یا ہم نہیں“ والی وحشت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
برسلز میں منگل کو ہوئے واقعات درحقیقت ”تم نہیں یا ہم نہیں“ والی وحشت کا ہولناک اظہار ہے۔ ان کی حقیقی وجوہات پر غورکرنے کی مگر کسی کو بھی فرصت نہیں۔