سندھ کے پسماندہ اوردورافتادہ سرحدی ضلع تھرمیں ان دنوں موت کا راکاس دندنا رہا ہے۔ سال گزشتہ سے اب تک سینکڑوں بچے دم توڑ چکے ہیں‘ مگر کٹھور دل انتظامیہ‘ شقی القلب حکمران نیز عوام کے ووٹوں اور چندوںپرپلنے والے منتخب نمائندے اور پیر سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔ سندھ کی حکومت نے سال گزشتہ تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا تھا مگر پھرکیا ہوا سب بھول گئے؟ سندھ کابینہ کا اجلاس بھی مٹھی میں بلوایا گیا تھا‘ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی تھر گئے تھے مگر ان سب کے دورے تھرکا مقدر نہ بدل سکے۔ ازل سے جوبھوک پیاس اورافلاس اس خطے کا مقدر ہے وہ آج بھی اس پر مسلط ہے۔
قائم علی شاہ بحیثیت وزیر اعلیٰ کہا کرتے تھے کہ تھرمیں ہلاکتوں کا سبب غذائی قلت نہیں نمونیہ ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ نمونیہ کی ویکسی نیشن کس کی ذمہ داری ہے؟ اموات غذائی قلت سے ہوں یا نمونیہ سے‘ جواب دہی تو آپ ہی سے ہوگی ”سیدنا عمرؓ نے تو فرات اوردجلہ کے کنارے جانور کی موت پربھی خود کوجوابدہ محسوس کیا تھا“۔ تھر کے کوٹہ پر ڈاکٹر بننے والوںکی پہلی ترجیح کراچی پھر حیدرآباد اورآخرمیں میر پور خاص میں پوسٹنگ ہوتی ہے‘ وہ اپنے عوام کی خدمت کی بجائے مال و متاع کو مطمع نظر بنائے ہوئے ہیں‘ حالانکہ تھر کے کوٹے پر 73ء سے آج تک جتنے ڈاکٹربنے ہیں‘ وہ تھر میں ہرہفتے ایک دن دیں تو یہاں کے باشندے طبی سہولتوں کے فقدان پر کبھی احتجاج نہ کریں۔ پیران پاگارہ‘ مخدومین ہالا اور کامارو‘ غوثیہ‘ لواری نیز رانی پور کے سجادہ نشیں اس علاقے میں ایک ایک اسپتال کی ذمہ داری لے لیں تو کوئی خاتون دوران زچگی ہلاک نہ ہو‘ نہ ہی کسی بچے کے مرنے کی اطلاع میڈیا میںآئے۔ملتان کی گلیوں میں موٹرسائیکل پررابطے کرنے والے مخدوم شاہ محمود قریشی اپنی غوثیہ جماعت کے مریدوں کیلئے پجارو ہی میں یہاں آجائیں اوراسکولوں‘ اسپتالوں‘ سڑکوں اور پانی کے ذخائرمیں سے کسی ایک کام کا ذمہ لے لیں تو تھربدل سکتا ہے۔
تھر وفاشعاروں کی دھرتی ہے‘ یہاں کے انسان ایک طرف مویشی بھی اگر خشک سالی کے باعث بیراجی علاقوں میں ہوں اور بارش کا چھینٹا پڑے تو رسیاں تڑوا کرریگستان پہنچنا چاہتے ہیں۔ جہاں ہلکی بارش بھی ریتیلے ٹیلوں کو سرسبز کردیتی ہے‘ تھر جہاں کرائم ریٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ غربت‘ بےروزگاری اوربدحالی کے با وجود یہاں لوٹ مار اور قتل و غارت گری نہیں ہوتی‘ یہاں کی مائیں نوزائیدہ بچوں کانام بادل رکھ کرخوش ہوجاتی ہیں کہ تھر پر برسنے والے بادل کی طرح نومولود بھی خاندان کیلئے خوشحالی لائے گا‘ یہاں کے لوگ تو کسی کوبد دعا بھی نہیں دیتے لطیفؒ کی طرح۔
سدا جئیں رقیب مرے
جن کا میلا من
دیکھیں اپنی آنکھ سے‘ پی سے میرا ملن
ہوجائیں پھر خاک‘ حسد کی اپنی آگ میں
جو رقیب کو مان دیتے ہوں وہ مہربان کو کیوں مایوس کریںگے۔ ان کے پر کھوں نے اربابوں‘ رانوں‘ پگارو‘ مخدوموں اور پیروں سے عقیدت کے جو رشتے استوار کئے تھے یہ آج بھی نبھا رہے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ محبت کی یہ ٹریفک یک طرفہ ہے‘ فریق ثانی جو ابی الفت سے گریزاں ہے۔ سال گزشتہ تھر میں ساڑھے چارسوسے زائد بچے ا پنے پیاروں کو روتا چھوڑ گئے تھے۔ اس سال 25 دن میں ڈیڑھ درجن سے زائد ہلاکتوں کی اطلاع ہے‘ یہ اعدادو شمار بھی تھرکے اسپتالوں کے ہیں جو بچے گھرمیں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے یامیرپورخاص‘ حیدرآباد‘ عمر کوٹ اور کراچی میںجو دم توڑگئے وہ اس فہرست کا حصہ نہیں۔ کراچی میں جاری سی پی ایل سی کے اعدادو شمار کی طرح جس میں کہا جاتا ہے کہ ماہ رواں میں اتنے موبائل فون چھینے گئے‘ اتنی موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ا تنے افراد تھانے پہنچے اور خودبیتی ریکارڈ کرائی‘ یہ ا ندراج بھی روزنامچہ پر ہوتا ہے‘ ایف آئی آر آسان مرحلہ نہیں ہوتی۔ بسا اوقات تو ہیڈ محرر اسٹامپ پیپر پر حلف نامہ بھی مانگ لیتا ہے گویا لٹنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔ سی پی ایل سی کے اعدادو شمار کی طرح تھر کی اموات بھی سرکاری اسپتالوںکاا عتراف جرم ہے کہ وہاں اتنے پھول مسلے گئے‘ اتنی کلیاں کمھلائیں۔
ان اموات کا حساب کس سے مانگیں؟ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ سرکاری ریکارڈتو یہ بتاتا ہے کہ تھر کے اسپتالوں میںادویہ موجود ہیں اور عملہ بھی‘ کوئی شکایت نہیں لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ الفاظ بھی‘ احساس بھی لیکن سننے والا کوئی نہیں۔ انتخابات 2018ءقریب ہےں پھر سیاسی جماعتیں تھرکارخ کریں گی اور مالداراقلیتی امیدوار بھی کہ تھرمیں ہندو آبادی بہت ہے اس وقت ریگستان کے مارو انہیں یاد ضرور دلائیں کہ ہمارے بچے مر رہے تھے‘ تم کہاں تھے؟ کیا ا ن افتادگان خاک کی کوئی خبرلے گا جو اپنے پیارے پھول جیسے بچوں سے روزانہ محروم ہورہے ہوں۔
تھرمیں موروں اور بچوں کی ہلاکتیں‘ حکومت خموش کیوں؟
Mar 24, 2017