پاکستان کی بقاءکا راز

Mar 24, 2017

بلاشبہ 23 مارچ کی پاکستان کی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت ہے کہ اس دن ہی سے باقاعدہ پاکستان کی تحریک کا آغاز ہوا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے برصغیر پر ہزاروں سال حکمرانی کی۔ اب جمہوریت کی آڑ میں وہ کس طرح زمام اقتدار ہندو¶ں کے حوالے کر سکتے تھے۔ پھر ہندو¶ں میں وہ قائدانہ صلاحیتیں ہی نہیں جو مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر عطا فرمائی ہیں۔ عدل‘ احسان‘ ایثار‘ نیکی‘ ایمانداری اور ایسی ہی بے شمار اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار جو خدمت انسانی کے لئے درکار ہیں صرف مسلمانوں کو ہی عطا کی گئی ہیں۔ ہندو نے ہمیشہ جھوٹ‘ دغا بازی‘ چالبازی‘ سازش کے ذریعے آگے بڑھنے کے طریقہ کار کو آگے بڑھایا۔ چانکیائی سیاست کی اصل بنیاد ہی جھوٹ ہے۔ جب کردار اتنا گھنا¶نا ہو جائے کہ وہ کامیابی کے لئے جھوٹ‘ کرپشن‘ خرابی‘ اخلاقی بیماری اور پست ترین انداز کو اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگے تو ایسی کامیابی کی کوکھ سے انتقام‘ ظلم‘ شقاوت‘ بے رحمی‘ عیاری‘ مکاری اور انسان دشمنی ہی جنم لے گی۔ پاکستان بنانے والوں کا کردار آج بھی اتنا روشن‘ شفاف اور باوقار ہے کہ اس وقت کا م¶رخ ان زعماءکا ذکر انسانی کردار کے عطر کے طور پر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ 23 مارچ اسی کردار کی تشکیل و تعمیر کو نئے انداز میں پیش کرنے کے عزم کے طور پر منانا چاہیے۔ پاکستان کو بالآخر اسلام کی عملی تجربہ گاہ بن کر دنیا کے سامنے ایک باوقار اور فلاحی‘ اسلامی معاشرہ کی مثال بننا ہی ہو گا کیونکہ یہی شاید وقت کی پکار ہے۔ دنیا آہستہ آہستہ مشرف بہ اسلام ہونے کی طرف جا رہی ہے کیونکہ آج بھی امریکہ سمیت صرف وہی معاشرے انسانی فلاح و بہتری کے لئے کوشاں ہیں جن میں اسلام کی اصل روح کے مطابق کچھ نہ کچھ اقدار پنپ رہی ہیں لیکن ہمارے وطن پاکستان میں ابھی اشرافیہ دنیا کی ہوس‘ چکاچوند اور لذت کام و دہن سے شاید باہر نہیں نکل سکی ہے۔ اسی لئے پاکستان بھی اپنے نظریہ¿ کے مطابق کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ہم سب کو اسی نظریہ پاکستان سے ایک بار پھر رجوع کرنا چاہیے۔ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ‘ محفوظ‘ خوشحال‘ باوقار اور فلاحی ریاست عطا کر دی۔ دراصل نظریہ پاکستان ہی پاکستان کی بقاءکا اصل راز ہے۔ یہی نظریہ پاکستان کی ترقی‘ خوشحالی اور امن و امان کا بھی ضامن ہے۔ ہم اس نظریہ سے صرف نظر کر کے کسی بھی طرح آگے نہیں بڑھ سکتے؟ اگر کوئی کہے یا سمجھے کہ پاکستان ایک سیکولر ملک بن کر زندہ رہ سکتا ہے یا ترقی کر سکتا ہے تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا کہ برصغیر کے مسلمان ہندو¶ں کے ساتھ مل کر امن و امان اور اپنے تمام حقوق و فرائض کے ساتھ زندہ رہ سکتے تو یقیناً تحریک پاکستان کے زعماءاس وقت یہی فیصلہ کرتے۔ پاکستان میں اس وقت مختلف الخیال طبقاتی نظام موجود ہے جو مقامی ذات پات سے لیکر زبان و بیان‘ رہن سہن اور تہذیب و ثقافت کے بڑے جاندار و شاندار رنگ لئے ہوئے ہیں۔ صرف نظریہ پاکستان ہی ہے جو سارے پاکستانیوں کے دلوں کو محبت‘ خلوص‘ ایثار‘ مساوات‘ احسان اور عدل سے جوڑے رکھ سکتا ہے۔ پھر اس سلسلہ میں اس قدر کوتاہی کیوں برتی جا رہی ہے۔ صوبائیت‘ لسانیت اور گروہی سوچ کو کیوں پروان چڑھنے کے مواقع دئیے جا رہے ہیں۔ حقوق کی پامالی کی باتیں کی جا رہی ہیں؟ یہ صرف پاکستان کو کمزور کرنے کی سامراجی سازشوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان‘ صرف نظریہ پاکستان کی موجودگی میں پاکستان ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اگر رہا تو وہ پاکستان نہیں ہو گا‘ کچھ اور ہی بن جائے گا۔ حمید نظامی مجید نظامی‘ رمیزہ نظامی‘ نوائے وقت‘ دی نیشن اور ان کے ساتھ ہم سب پاکستانی نظریہ پاکستان اور پاکستان کے اصل محافظ ہیں۔ پاکستان کو فکری‘ نظریاتی‘ معاشرتی سرحدوں پر کمزور کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ پاکستان کے ہی نہیں خود اپنے بھی دشمن ہیں۔ ایسے لوگ شیخ چلی کی شاید ایک دوسری شکل ہیں جو درخت کی اس ٹہنی ہی کو کاٹ رہا تھا جس پر بیٹھا تھا۔

مزیدخبریں