اسلام آباد (بی بی سی) سینیٹ کی خصوصی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پی آئی اے میں پائی جانے والی 5 بڑی خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے کمپنی پر توجہ نہیں دی اور اس کی انتظامیہ میں سیاسی بنیادوں پر تیزی سے تبدیلیاں کی گئیں۔ من پسند افراد کو بھرتی کیا گیا جن میں نہ تو کوئی سٹرٹیجک سوچ تھی اور نہ ہی ایسی صلاحیت کہ وہ منافع بخش منصوبہ بنا سکیں۔ کمیٹی نے کہا پی آئی اے قیادت اور اعتماد کے بحران سے دوچار ہے۔ آج بھی پی آئی اے کا مستقل سی ای او یا سربراہ نہیں اور قائم مقام سی ای او دراصل چیف آپریٹنگ افسر ہیں۔ موجودہ قائم مقام سی ای او نے نے حکومت اور بورڈ کی جانب سے انتظامی اور آپریشنل معاملات میں ناجائز مداخلت کا شکوہ کیا جو کام صرف سی ای او اور مینیجنگ ڈائریکٹر کا ہونا چاہیے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ عہدوں پر فائض کچھ ڈائریکٹر ان عہدوں کے لیے غیر موزوں ہیں۔ تین ایسے ڈائریکٹرز ہیں جو تین لاکھ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں لیکن انہیں کوئی کام نہیں سونپا گیا اور وہ بغیر کام کیے ایک سال سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ کمیٹی نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام سٹیٹ اونڈ ایٹرپرائزز میں ہر یونین کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یونینز اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے اپنے استعداد کا غلط استعمال کرتی ہیں اور انتظامیہ کو بلیک میل کرتی ہیں۔ سی بی اے کے علاوہ سات دوسری ایسوسی ایشنز ہیں جو پی آئی اے کے آپریشنز کو غیر قانونی طور پر مفلوج کرنے میں ماضی میں بھی ملوث رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ یہاں تک کے وہ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کس روٹ پر کون سا عملہ جائے گا جو ایک انتظامی معاملہ ہے۔ کمیٹی کو پتہ چلا طیاروں کے فاضل پرزوں کی خریداری سے لے کر فریٹ یعنی سامان لے جانے کے لیے جگہ کی الاٹمنٹ، بھرتیوں اور تبادلوں، انجینئرنگ اور کیٹرنگ شعبوں میں کرپشن بھرپور ہے۔ عہدوں کی تنخواہ ان کے کام کے مقابلے میں بعض جگہوں پر غیر متوازن ہے۔کمیٹی نے سفارش کی پی آئی اے کے بورڈ کو فی الفور تحلیل کر دیا جائے اور نئے بورڈ میں ہوابازی اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو تعینات کیا جائے۔ بورڈ اپنا چیئرمین خود منتخب کرے۔ بورڈ صرف وسیع پالیسی معاملات، نئے منصوبوں پر غور کرے اور تمام انتظامی اور آپریشنل معاملات کو انتظامیہ کے سپرد کر دے۔ تنخواہوں اور مراعات کو معقول بنایا جائے اورحکومت فوری طور پر چیف آپریٹنگ آفیسر تعینات کرے۔ بورڈ اور سی ای او سیاسی مداخلت کو خاطر میں نہ لائیں اور بھرتی اور برخاست کرنے کا اختیار سی ای او کو دیا جائے۔ سی بی اے اپنی سرگرمیوں کو گریڈ ایک سے چار کے عملے کی فلاح و بہبود تک محدود رکھے اور انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کی بالکل اجازت نہ دی جائے۔
پی آئی اے