یوم پاکستان اور قومی سلامتی کے تقاضے

23مارچ 2017؁ء کے روز قوم نے ایک بار پھر ماضی کی طرح یوم پاکستان پورے جوش وخروش سے منایا ہے راقم اس موقع پر پاکستان نیشنل فورم کی طرف سے دل کی گہرائیوں کے ساتھ مبارکباد پیش کرتا ہے ۔ پوری قوم نے جشن منایا ہے اور ہر لب پر دعا ہے کہ اے وطن تو سلامت رہے افواج پاکستان نے اسلام آباد میں شاندار پریڈ کے ذریعے پاکستان کی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان دشمن اندرونی وبیرونی حلقوں کو بروقت پیغام دیا ہے کہ وہ وطن عزیز کو میلی آنکھ سے دیکھنے سے پرہیز کرے صدرمملکت اور وزیراعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف نے بھی اس موقع کی مناسبت سے قوم کو ایک روشن مستقبل کا یقین دلاتے ہوئے جو عناصر اپنی مختلف مذموم سازشوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتے ہیں انہیں وارننگ دی ہے کہ وہ ہماری امن پسند پالیسی کو ہماری کمزوری نہ سمجھیں لیکن اندرون ملک اور ہماری مشرقی ومغربی سرحدوں کے اس پار بعض ممالک اور انکی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے اندر فساد برپا کرکے تشدد انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں بدستور سرگرم ہیں۔ 23مارچ کے موقع پرا فواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جس حوصلہ افزاء اور طاقتور انداز میں اپنا دایاں بازواٹھا کر مٹھی کو مکا کے انداز میں لہراتے ہوئے شہید ملت وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کی یاد دلائی ہے اس سے پوری پاکستان قوم کے حوصلے اور عزم کو مضبوط کرنے میں بڑی مددملی ہے۔ جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ ہماری بہادر قوم نے 1947ء میں تمام پاکستان دشمن عناصر کو شکست دیکر پاکستان حاصل کیا تھا انہوں نے پاکستان دشمن اندرونی وبیرونی عناصر کو وارننگ دی کہ اگر یہ عناصر اپنی مذموم سازشوں سے باز نہ آئے تو یہ بہادر قوم انہیں ایک دفعہ پھر مناسب سبق سیکھا کر اپنی قومی سلامتی اور آزادی کی حفاظت اور دفاع کو یقینی بنانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ آج 23مارچ کے روز ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے ایک منظم سازش کے تحت حالت جنگ میں ہے بہت سال یہ کہا جاتا رہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ ہماری نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے نائن الیون کے نیویارک میں ہونیوالے عظیم حادثوں کے باعث مسلمانوں کیخلاف بدلہ لینے کی امریکن عالمی سازش ہے جس سے ان حلقوں کی طرف سے پاکستان کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ملوث ہونے سے روکنے کیلئے جو مہم جن حلقوں نے چلائی اس قارئین بخوبی واقف ہیں امریکہ نے نائن الیون کے بعد جب افغانستان کیخلاف بھر پور جنگ کا آغاز کیاتو کہا گیا کہ واشنگٹن کی طرف سے ایک ٹیلی فون پر پاکستان نے بھی مضبوط ردعمل کی بجائے کمزوری دکھائی اور کافی سال یہ Debateجاری رہی کہ ابھرتی ہوئی عالمی دہشتگردی کی یورش میں پاکستان کو لاتعلق رہنا چاہیے امریکہ اور NATOفورسز کے علاوہ دیگر ممالک کی کاروائیوں سے پاکستان کو لاتعلق رہنا چاہیے لیکن حالات کے جبر کے تحت اس وقت کی حکومت پاکستان شاید یا غالباً عالمی دبائو کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ مختصر یہ کہ جب پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں پر دہشت گردی کی قیامت برپا کردی تو پاکستان کی حکومت تمام سیاسی پارٹیوں پارلیمنٹ کے نمائیندوں اور عوام میں یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ امریکہ یا مغربی طاقتوں کے سٹریٹیجک مفاد اس خطہ میں اپنی جگہ لیکن دہشتگردی کی جنگ اپنی جڑیں مختلف تنظیموں کے ذریعے پاکستان بھر میں پھیلاکر وطن عزیز کو عدم استحکام کا شکار بنانے پر تلی ہوئی ہیں اور اس طرح آرمی پبلک سکول پشاور میں گیر انسانی بلکہ حیوانی شرمناک کاروائیوں کے بعد پورا پاکستان حالت جنگ میں گرفتار ہوگیا اور کفر ٹوٹا ظلم کی انتہا کے بعد چنانچہ سوات جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں کامیاب فوچی آپریشن ضرب عضب کیساتھ ساتھ قومی ایکشن پلان بھی وجود میں آیا فوجی عدالتیں بھی اور غیر معمولی حالات کے پیش نظر میں قائم کی گئی اور چند روز پہلے قومی اسمبلی نے دوتہائی اکثریت سے آئین میں 28ویں ترمیم کا بل منظور کرلیا ہے جس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع منظور کی گئی ہے اور آرمی ایکٹ میں بھی حالت جنگ کے تقاضوں کے تحت فوج کو مزید اختیارات سونپنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر غیر تسلی بخش بلکہ تشویش ناک صورتحال سب کے سامنے اور اسکے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورتحال بد سے بدتر ہونے کے باعث ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے علاوہ صوبائی اور وفاقی حکومتی مشینری کی مختلف کمزوریوں کی نشاندہی روز مرہ کا معمول بن گیا ہے جس سے عوام کی پریشانیوں میں کئی دیگر وجوہات کے باعث جن کے ذکر کیلئے اس مختصر کالم میں جگہ نہیں ہے صرف یہ کہنا کافی ہے کہ وطن عزیز مختلف اندرونی وبیرونی چیلجنز سے دوچار ہے ان سے نمٹنے کیلئے افواج پاکستان کو وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر ایک طرف فوجی آپریشن ردالفساد چاروں صوبوں میں Launchکرنا پڑا ہے جس کی بھرپور کاروائیاںہر روز اخبارات اور آئی ایس آئی آر کے اعلانات کے ذریعے سامنے آرہی ہیں ۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کو دہشت گردی کی روک تھام کیلئے مجبوراً بند کرنا پڑا جسے اب دوبارہ کھول دیا گیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان آمدروفت کے علاوہ تجارتی کاروبار بھی حرکت میں آ سکے امید کی جانی چاہیے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین سے پاکستان پر دہشتگردوں کے متواتر حملوں کی روک تھام کیلئے ضروری کارروائی کریگی لیکن کڑوی حقیقت یہ ہے کہ صرف امیدیں باندھنے سے دہشتگردی کی روک تھام ممکن نہیں ہے اس کیلئے قومی سطح پر مضبوط ایمان اتحاد اور تنظیم کی فوری ضرورت ہے جسکے ساتھ ساتھ ایسی طاقت کے مظاہروں کی بھی ضرورت ہے جس سے دشمن پر خوف طاری ہو۔فوجی قوت پوری قوم کے بھر پور تعاون کے بغیر پائیدار کامیابی حاصل نہیں کرسکتی سویت یونین کازوال اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ ایک طاقتور نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس سویت حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ختم ہوگئی جہاں تک دہشتگردی کے مکمل خاتمے کا تعلق ہے شدت پسندی اور انتہا پسندی مختلف رنگوں اور صورتوں میں پھیلتی جارہی ہے۔تازہ ترین نمونہ لندن کی پارلیمنٹ کے باہر فائرنگ کا حادثہ ہے۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن