کیا جوان ۔ کیا بوڑھا۔ ہمارے ہاں کا تو بچہ بھی اِس کریہہ فعل سے بھرپور نفرت رکھتا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ بھی جو اِس نظام کرپٹ کے سائے تلے توانا‘ مضبوط ہوئے۔ گجر سے چودھری بنے ۔ لوہار سے جیولر بنے ۔ گوالے سے کرنسی ڈیلر بنے ۔ ٹاوٗٹ سے تھانیدار بنے ۔ رسہ گیری قبضہ گیری جاگیرداری میں بدلی ۔ کیسے نہ بدلتی چمک کی کرنیں اتنی سنہری ہوتی ہیں کہ آنکھیں بند ہو جائیں ۔ ضروری نہیں سب اِسی صف کے نمازی ہوں۔ ہم تنگ ہیں تو بالا تر حلقے کونسا خوش نظر آرہے ہیں ۔ آپ نے سنا نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں امیروں کا مفت علاج ۔ جبکہ غریب کے نصیب میں دھکے در دھکے کا نسخہ ۔ یہ تو روزانہ کا بیانیہ ہے ذرا ہٹ کروہ دعویٰ پڑھیں ۔ کہ کوئی خائن عوامی منصوبوں میں ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کرسکتا ۔ تقریر کا پہلا حصہ بھی پڑھو ۔ مناسب بہت چھوٹا لفظ ہے انتہائی ظلم ہے آئے دن "ینگ ڈاکٹرز "ہڑتال پر رہیں گے تو مریضوں نے تڑپنا ہے ۔ لفاظی تڑپ کم یا ختم نہیں کرسکتی ۔ سیدھے سبھاوٗ فارغ کر دیں ۔ روپیہ ہر شخص کی لازمی ضرورت ہے ۔ ایک کے بدلہ درجن بھرتی ہو جائیں گے ۔ بس ذرا خوبصورت ۔مسجع ۔ دلفگیر کرنے والی ڈکشنری کا صفحہ بند کر دیں ۔ نہ تسلی ٹوٹی ٹانگ جوڑ سکتی ہے ۔ نہ تقریر دل کی نازک ۔ پیچیدہ سرجری کا متبادل ہو سکتی ہے ۔ ہر کام ۔ ہر شعبے میں ایک جیسی رٹی تقریریں نئے "مقرر حضرات" کی گنجائش پیدا کرنے کا موجب بنتی ہیں ۔ کچھ کاموں میں راست اقدام ۔دو ٹوک فیصلہ فساد اور فساد کا موجب بننے والے عناصر ۔ عوامل کا خاتمہ کر سکتا ہے ۔ تو "اعلیٰ حضرت "بیورو کریسی کی شُستہ کاغذی تیاری کی کریز سے نکل کر چوکے ۔ چھکے ماریں تبھی ۔ جیت ممکن ہو گی۔ "کریز "سے تو ہمارے محترم صدر مملکت بھی نکلتے رہتے ہیں ۔ وہ بہت عمدہ اطوار کے مالک ہیں ۔ عوام اور" صدر پاکستان" احساسات میں" ایک صفحہ" پر ہیں ۔ وہ تو اختیارت کے باب میں بھی" ایک صفحہ" پر ہیں ۔ ہر پاکستانی جب" صدر پاکستان" کے الفاظ دل پر رقم کرلے گا کہ مجھے کرپٹ لوگوں سے گِھن آتی ہے تو وہ اُن کی اِس ہدایت کی لازمی پیروی کرے گا ۔ "ہر شخص بدعنوانی سے نفرت کرے" درست فرمایا کرپشن کا طوفان نہ اُٹھتا تو ترقی رُک نہیں سکتی تھی ۔ ترقی ۔ خوشحالی سے اخلاقیات تک کو کرپشن نے چاٹ ڈالا ۔ آپ کو یاد ہے کچھ ماہ قبل بھی "صدر ممنون حسین "نے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ یاد ہے بلکہ پچھلے سال بھی قوم کو نصیحت کی تھی کہ کوئی کرپٹ شکص قریب آئے تو اُسے دور کر دیں ۔ " قوم "نصیحت قبول کرنے سے انکاری کیوں ہے ؟ قبول کیسے کرے ۔ وہ کونسا پاک ۔ مطہر پانی ۔ دودھ سے دُھلی ہوئی ہے ۔ مالی سے لیکر گوالہ ۔ ڈرائیور سے لیکر خانساماں ۔ ایک نجی گھر کی داستان" مالکن "سے سُن لیں ۔ ایمانداری کے قصے سُن کر چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔ یہ تو پھر30" کروڑ "آبادی کا معاملہ ہے ۔ یہ "20"میں ایک دم سے10" کروڑ "کا اضافہ کر دیا ۔وہ بھی گھر بیٹھے ۔ نہ مہم میں حصہ لیا نہ ابھی تک گھر کی خانہ شماری ہوئی ۔ "اُن کی ہوئی ہے" یا وہ گھر سے گھر تک مہم میں شامل ہیں جو آغاز میں ہی الزامات پر اُتر آئے ۔ کوئی دھمکی دے رہا ہے شاید ایک ازلی شکایتی فریق عدالت بھی پہنچ چکا ہے ۔ عجیب فعل ہے ۔ کہنے کو جمہوریت ہے مگر اِس کو دوسروں کے رویے ۔ افعال میں ہم کھوجتے ہیں ۔ ہماری زندگی ۔ جمہوریت نامی چیز سے بالکل خالی ہے اور براہ کرم اب ہم کو اِس کے محاسن گنوانے مت بیٹھ جانا ۔ تمھیں جمہوری مزاج ہونا چاہیے ۔ یہ لازم ہے ۔ ہمارا تذکرہ اظہار رائے کی آزادی کیخلاف ہے ۔ معاشرے کو گِھن کی طرح دکھاتی کرپشن پر بات کرتے کرتے یہ درمیان میں "اظہار رائے کی فسادی "کہاں سے آئیگی ؟؟آپ بھی فقروں کی بجائے پیراگراف کا جوڑ لگانے سے باز نہیں آتے ۔باز نہ آنے سے یاد آیا "خادم اعلیٰ" کا شکوہ کہ وزیراعظم ناراض ہوتے ہیں مگر کیا کروں پرانے شعر دہرانا پڑتے ہیں ۔ لگتا ہے تقریر لکھنے والے تھک چُکے ہیں کیا ذخیرہ الفاظ کی تلاش سے ؟ نئے نئے شعر ۔الفاظ ۔ اب بندہ کہاں کہاں سے کتب کھنگالے ۔ لائبریری جائے ۔بھئی یہ عام آدمی ۔ تھوڑے سے پڑھے لکھے دانشور حضرات کے شغل ہیں ۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ ۔ پُر آسائش نوکری کے صوفہ نما نرم و ملائم ۔ گداز کُرسی پر بیٹھنے والوں کا دردد سر نہیں ۔
تعلیم یافتہ سے ذہن اُس تقریرکی طرف چلا گیا جس میں قوم کی بیٹیوں کو وظائف دینے تنقیدی سوچ پر لعنت فرمائی گئی ۔ یہ تو تقریب کا سیاسی پروگرام سُنا ڈالا ۔ پہلے والا حصہ بھی تو پڑھو ۔ کہ 90"پاکستانی" وسائل کے بغیر جی رہے ہیں ۔ ظلم و زیادتی کا بازار آج سجا ہے ؟ پہلی مرتبہ سر پر آرائے سلطنت ہوئے ہیں ؟ 35" سال "سے دونوں بڑے صوبوں میں مسلسل گدی پر براجمان ہیں ۔ ہر اچھی بات ۔ نیک عزم کو تنقید کا تڑکا مت لگایا کرو ۔ یہ کم ہے ۔ ہمارے لیے حوصلہ مندی کا پیغام ہے کہ برملا "اشرافیہ" کو رگید ڈالتے ہیں ۔ اب تو وارننگ دے ڈالی کہ" اشرافیہ" عام آدمی کے زخموں پر نمک پاشی نہ کرے ۔ یہ اشرافیہ کون ہے؟ ۔ تم ۔ کیا فرش پر جھاڑو لگاتی رضیہ کے ہاتھ سے جھاڑو گرتے گرتے بچا ۔ مگر یہ ہیں کون ؟ تقریر کی روشنی میں مطلب بتاوٗں ۔ وہ لوگ جو بالکل تہی دست ہیں ۔ اگر ہم اشرافیہ ہیں تو پھر غریب کون ہیں ؟" تقریر کرنے والے "۔
دل نہیں مانتا کہ جنوبی پنجاب کے فنڈز وزیر اعلیٰ آفس کی تزئین پر خرچ کر دئیے گئے ۔ ٹھیک طرح سے سنی تھی۔ ہاں بھئی شک کیوں کرتے ہیں ۔ کان ہمارے تھے ۔ گواہی ایک سنیئر افسر کی تھی ۔ یہ "اعلیٰ" حکومتی شخصیت کون ہے ؟نرسری کے طالب علم ہو ۔ "صوبے" میں "اعلی "کون ہوتا ہے ۔ نہیں جانتے ۔ وہ تو کہہ رہے تھے کہ90" پاکستانی" ؟؟ غلط نہیں تھااور یہ بھی غلط نہیں کہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں گورننس پوشیدہ کتاب نہیں ۔ تبدیلی لانے والوں کے لباس۔ گاڑی تک تبدیل ہو گئے مگر پشاور سے ایبٹ آباد تک شاہراہ کے کھنڈر ۔ گڑھے بھرے نہیں جا سکے ۔ یہاں صورتحال تو بہتر ہے ناں ۔ بہت بہتر ہے۔ خوشیوں کا نگر آباد کرنے کی تمنا تورکھتے ہیں ۔اچھی خواہش ہے۔ پر جھاڑو لگانے والوں کا نگر ۔ تندورکے شعلے سہنے والوں کا نگر ۔ چھوٹے گریڈ کے اہلکاروں کا نگر ۔ سبھی نگر آباد ہونا چاہیے۔