’’یوم پاکستان‘‘ گزر گیا… اور تاریخ کے اوراق پر یہ داستان موجودہے کہ برطانیہ نے بظاہر ہندوستان میں اپنا اقتدار خیر سگالی کی فضاؤں میں منتقل کر دیا تھا لیکن تقسیم ہند کے نتیجے میں مسلمان اکثریت کشمیر کا مسئلہ ہندوستانی قبضہ کی وجہ سے ادھورا رہ گیا جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقل تنازعہ کی شکل میں موجود ہے اور پھر یہ واقعہ بھی تاریخ کے سینے میں داغ کی طرح موجود ہے کہ مشرقی علاقہ کے بنگال یعنی مشرقی پاکستان ہندوستان کی سازشوں کی وجہ سے علیحدہ ہوا مگر اس یوم پاکستان کے موقع پر جبکہ 71 کی جنگ کے بعد تقریباً 46 برس گزر چکے ہیں ایک محاورے کے عین مطابق بھارت کو آنے والے دنوں کی نئی تاریخ میں مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور حالات وواقعات اس نہج کی طرف جارہے ہیں کہ ہندوستان اس عمل سے بچ نہیں سکتا کیونکہ یہ قدرت کا فیصلہ ہے کہ مکافات عمل ضرور ہوتا ہے… بقول مرتضے لابرس… ؎
جو نشہ تھا زور وزر کا پہلے چڑھتا ہی گیا
آخرش وقت مکافات عمل آہی گیا
خطے میں نئی صف بندی میں روس‘ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسا کبھی یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کا فاصلہ ہم سے اتنا زیادہ تھا کہ آپس میں متحد رہنا دشوار تھا وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب ہندوستان وہاں مسلسل سازشیں کررہا تھا… لیکن اس دوران قدرت کی طرف سے یہ انتظام بھی ہورہا تھا کہ چین کا تبت سے الحاق ہوگیا اور 1965ء کی جنگ میں جب پاکستان اور بھارت کی فوجیں متصادم ہوئیں تو جنگ بندی کے سمجھوتوں کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا… پاکستانی عوام کے جوش وجذبہ اور پاک افواج نے ہندوستانی سازش کا خوشدلی سے مقابلہ کیا اور یہ وقت ایسا تھا کہ جب امریکہ کی ہمدردریاں ہندوستان کے ساتھ تھیں اور اسی وقت میں قدرتی طور پر پاکستان چین کے قریب ہوگیا۔
1965ء سے 1971ء کے چھ سالہ دور میں جبکہ پاکستان چین کا دوست تھا … دوسری طرف ہندوستان میں اندراگاندھی امریکہ کے ساتھ مزید دوستی بڑھانے کی بجائے روس‘ بھارت تعلقات مضبوط کرنے میں مصروف تھیں… کیونکہ اندرا گاندھی ایسی سیاستدان تھیں کہ جس نے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کے درمیان ہی ’’سبز انقلاب‘‘ کو متعارف کرواتے ہوئے ریاستی سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کی تھی اور ’’نجی کاروبار‘‘ کو فروغ دینے کے خلاف پالیسی اپنا کر چلتی رہی تھی تاکہ سرمایہ دار امریکہ کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ روس کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط رکھ سکے… اندرا گاندھی نے اس پالیسی کو کامیابی کے ساتھ اختیار کر کے 1970ء میں سوویت یونین کے ساتھ امن‘ دوستی اور تعاون کا بیس سالہ معاہدہ کرلیا اور 1971ء میں پاکستان کو کمزور ثابت کرکے ہندوستان خطے کی ایک بڑی طاقت بننے کی طرف گامزن ہونے لگا… لیکن اس دوران ہندوؤں اورسکھوں کے فسادات رونما ہوتے رہے اور تقریباً تیرہ سال بعد اندرا گاندھی قتل ہوگئیں… دوسری طرف پاکستان میں اسی دوران ایوب خان کے بعد یحییٰ خان کا دور رہا… اور یحییٰ خان کے دور میں اکہتر کی ناکام جنگ کا واقعہ پیش آیا… اور مشرقی پاکستان کے نقصان کے بعد بھٹو اقتدار میں آئے لیکن جمہوریت کی یہ فضا عارضی ثابت ہوئی اور جنرل ضیاء الحق آگئے… اورجنہوںنے حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے نام پر اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا… اور وقتی طور پر ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوگئی … لیکن حال ہی میں امریکہ کے صدر اوبامہ کے دور سے ہی یہ بات ثابت ہوگئی کہ امریکہ کا دراصل جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہی رہتا ہے اور پھر امریکہ کی یہ خواہش پوری کرنا کسی بھی ملک کے لیے دشوار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے ماحول‘ جغرافیائی مسائل اور اپنی ذات اور شناخت کو چھوڑ چھاڑ کروہ کرتا چلا جائے جو ہزاروں میل دور بیٹھا امریکہ چاہتا ہے امریکہ کی ہمارے بارے میں خواہش میرے اشعار کے مطابق ہوتی ہے کہ …
اسے سوچا ہے جیسا میں نے ویسا ہو بہو آئے
میں اس کا نام جب بھی لوں وہ میرے روبرو آئے
امریکہ اکثر اوقات پاکستان کا منفی چہرہ دیکھنے لگتا ہے لیکن کبھی کبھار اسے ’’مثبت‘‘ چہرہ بھی دکھائی دیتا ہے…کولن پاول کی ایک کال پر مشرف کے ڈھیر ہونے کے واقعہ میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کے لیے کثیر امداد دی گئی اور بظاہر اس امداد کو جتنے بھی اچھے انداز میں سوچیں مگر پھر یہ مجبوری سامنے آجاتی ہے کہ اتنی امداد لے کر آزادی سے اپنی سلامتی کے لیے جرأت مندانہ فیصلے کرنا دشوار ہو جاتے ہیں اور ڈکٹیشن تسلیم کرنا پڑتی ہے ۔
ان سارے حالات میں ہی بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں کا آنا اور جمہوریت کاقائم ہونا اس ملک کے لیے بڑی خوش خبری ہے … پاکستان کے لیے ’’سی پیک‘‘ کا منصوبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے مگر اسے امریکہ اور ہندوستان بالکل اسی طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کبھی ہمیں ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے بعد دیکھا جاتا تھا… لیکن ہندوستان کی سازشوں اور خطے کی جغرافیائی اہمیت کے مطابق اگر پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کو مضبوط بنا لیا تو یہ بات سچ ثابت ہونے والی ہے کہ ہندوستان کو مکافات عمل کا سامنا کرنے کا وقت قریب آنا شروع ہوچکا ہے کیونکہ ہمارے چین کے ساتھ ساتھ روس سے تعلقات بہتر ہونا نیک شگون ہیں… اب ہندوستان افغانستان میں اپنااثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا رہے گا… لیکن بدقسمتی سے امریکہ کے معاملے میں اسے انہی دشواریوں کا سامنا رہے گا جیسا کہ ہمارے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان ہزاروں میل دور ہے اور جغرافیائی سطح پر یہ فاصلے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں… اب خطے میں پاکستان‘چین ‘ روس اور افغانستان کی قربتیں ایسی قربتیں ہیں جو جغرافیائی طور پر بھی ہمیں قریب لاتی ہیں… ہندوستان کے ساتھ ہی یہی معاملہ ہے اور اسی لئے اندرا گاندھی کی امریکہ کے ساتھ ساتھ روس کے لیے پالیسی ایک سیاستدان کی بہترین پالیسی تھی… لیکن ہماری حکومتوں کو ماضی میں اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا اور اب وزیراعظم نوازشریف جو کہ ہندوستان کے ساتھ دوستی رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں انہیں اندراگاندھی کی اس پالیسی کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ جب سرمایہ دار امریکہ سے دور ہونے کے لیے اندرا گاندھی نے ’’نجی کاروبار‘‘ کی دل شکنی کی تھی اور اپنی عوام کے لیے ’’سبز انقلاب‘‘ لے کر آئی تھی۔
اپنا خیال رکھئے گا !