کھودا پہاڑ …نکلا یوگی !

اتر پردیش میں فی الحال مودی دور کے بعد یوگی عہد کا نعرہ گونج رہا ہے۔ اس موقع پر یوگی ادتیہ ناتھ کی تاجپوشی پر ان کے والد کا بیان بہت توجہ طلب ہے۔یاد رہے کہ بھارتی ٹی وی چینل ’’نیوز نیشن‘‘ اور ’’انڈیا نیوز‘‘ پر یوگی کے والد آنند سنگھ بشٹ نے خوشی اور فخر کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ ’’مہنت اویدیہ ناتھ (یوگی کا گُرو) کی علامات یوگی میں بھی آ گئی ہیں۔ میں نے بھی اسے (یوگی) کو سمجھایا کہ لوگوں کے ساتھ رواداری رکھو اتفاق سے اب تم بہت بڑے عہدے پر ہو۔ دوسروں سے برا سلوک نہ کرو خصوصاً مسلمانوں سے امتیازی سلوک بند کر دو‘‘
سوال یہ ہے کہ آخر اس نصیحت کی ضرورت آنند سنگھ کو کیوں محسوس ہوئی؟ اس لئے کہ یوگی میں مذکورہ صفات کا فقدان ہے بلکہ وہ اس کے بالکل بر عکس ہے اور اس میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کا اعتراف اس کے والد نے بلاواسطہ کیا۔ آنند سنگھ نے اس کیلئے مہنت اویدیہ ناتھ (یوگی کا گُرو) کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اگر آنند سنگھ اپنے بیٹے کو اویدیہ ناتھ کے ساتھ نہ بھیجتا تو اسے سمجھانے کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔ واضح رہے کہ ادتیہ ناتھ کے والد نے تواس موقع پر اپنے خاندانی بزرگ اویدیہ ناتھ کا ذکر کیا لیکن خود وزیراعلیٰ کی زبان پر اپنے گرو کا نام ابھی تک ایک بار بھی نہیں آیا۔ اس سے یوگی کی خصلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی اور یوگی دونوں میں یہ احسان فراموشی قدرے مشترک ہے۔
واضح رہے کہ مہنت ادیتیہ ناتھ کا اصلی نام اجے سنگھ بشٹ تھا اور یہ خاندان اتراکھنڈ میں پوڑی گڑھوال کا باشندہ ہے۔ ادیتیہ ناتھ نے 1998 سے اب تک پانچ مرتبہ اسمبلی کا انتخاب جیتا۔ وہ اویدیہ ناتھ کے نام سے 1998 سے پانچ مرتبہ رکن پارلیمان چنا گیا۔ ادیتیہ ناتھ اپنے گرو کو تو کیا یاد کرتا کہ اس نے تو ابھی تک اپنی ماں کو فون نہیں کیا۔ اس لئے ’’نیوز نیشن‘‘ کے پوچھے جانے پر بوڑھی ماں بولی ابھی تک بات نہیں ہوئی ہے۔ یوگی نے اپنے نئے گرو (مودی) سے ماں کی محبت کو کیش کرانے کی سیاست شاید ابھی تک نہیں سیکھی ہے۔دوسری جانب یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں سے نفرت کے بھارتی جنون میں ان دنوں انتہائی سرعت سے اضافہ ہوا ہے اور راجیہ سبھا کے رکن اور بی جے پی کے سینئر لیڈر ’’سبرامنیم سوامی‘‘ نے بائیس مارچ کو کہا کہ ’’کسی میں ہمت ہے تو ایودھیا میں بنے رام مندر (عارضی) کو گرا کر دکھائے اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس کا جو انجام ہو گا وہ دنیا دیکھے گی۔‘‘
علاوہ ازیں گذشتہ چند دنوں میں جنونی ہندو رہنما ’’ساکشی مہاراج‘‘ نے کہا ’’مسلمانوں اور عیسائیوں کی میتیں دفن کرنے کی بجائے جلائی جانی چاہیں کیونکہ یہ ایک ہندو ملک ہے اور یہاں پر صرف وہی رسوم و رواج رائج چلیں گے جو ہندو دھرم کے مطابق ہوں گے۔‘‘ اس کے علاوہ ’’سادھوی پراچی‘‘، ’’نرنجن جیوتی‘‘، ’’ونے کٹیار‘‘ اور ’’اوما بھارتی‘‘ سمیت بہت سے جنونیوں نے اس ضمن میں جو کچھ کہا اور جو زبان استعمال کی، اسے احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔
ایسے میں امید ہی کی جا سکتی ہے کہ عالمی برادری اپنے تجاہلِ عارفانہ کو ترک کرکے مثبت اور ٹھوس طرز عمل اپنائے گی۔ اور دنیا بھر کے فسادی عناصر کی بیخ کنی میں اپنا کردار نبھائے گی۔

ای پیپر دی نیشن