آج کل سیاسی ہلچل کے ساتھ کرکٹ کی گہما گہمی بھی اپنے عروج پر ہے۔ لاہور کے بعد کراچی میں فائنل کھیلا جائے گا۔ جس کے لئے اہلیانِ کراچی بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کھیل اور تفریح اچھی ہے اور خصوصاً کراچی میں تو ایسی تفریحی سرگرمی ایک طویل مدت کے بعد برپا ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ کراچی کی امن و امان کی تباہ شدہ حالت تھی۔ جو کہ اب آ کر مسلم لیگ (ن) کی کاوشوں کی بدولت اس درجہ بہتر ہو گئی ہے کہ وہاں سپرلیگ کا فائنل میچ کروانے کے امکانات روشن ہوئے ۔ ایسی تفریحی گہما گہمی سے دُنیا کے دیگر ممالک کو بھی اچھا پیغام جاتا ہے کہ پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کسی کے جان و مال کو خطرہ ہو یا یہاں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ پاک افواج نے پہلے آپریشن ضربِ عضب اور اب آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی تمام پناہ گاہیں تباہ و برباد کر دی ہیں اور دہشت گردوں کا بھی تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ اب پاکستان بیرونی اور اندرونی طور پر محفوظ ہے۔ اس کے باوجود امریکہ آئے روز ہمیں ’’ڈومور‘‘ کی تلقین کرتا رہتا ہے۔ لیکن اب ہماری حکومت اور فوج نے بھی امریکہ کو واضح الفاظ میں باور کروا دیا ہے کہ ہم جو کر سکتے تھے، کر چکے ہیں۔ اب آپ کی باری ہے۔ اب آپ ’’ڈومور‘‘ پر عمل کریں۔ افغانستان میں بیٹھ کر بھی اگر امریکہ دہشت گردوں پر قابو نہیں پا سکا تو اس میں پاکستان کا نہیں امریکہ کا قصور ہے۔ کیونکہ اب پاکستان میں جو اِکا دُکا دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں وہ افغانی دہشت گرد کر رہے ہیں جو سرحد عبور کر کے ادھر آ جاتے ہیں۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر پاکستان نے پاک افغان سرحد پر خاردار تاروں سے تمام غیر محفوظ علاقے کو محفوظ بنانا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہمارا ملک الحمد اللہ اب اتنا محفوظ ہے کہ ہم کراچی جیسے پُرخطر شہر میں بھی کرکٹ میچ کروا رہے ہیں اور لوگوں کو تفریح مہیا کر رہے ہیں۔ کرکٹ میچ کی تفریح اپنی جگہ…لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی دیکھنے میں آیا ہے اور وہ یہ کہ جس علاقے میں میچ ہو رہا ہے اسے سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے سیِل کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے شہر کی تقریباً تمام سڑکیں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔ سڑکیں بند ہونے سے ٹریفک بھی جام ہو گئی ہے۔ ابھی چند روز قبل لاہور میں جو میچ کھیلا گیا اس کے باعث ٹھوکر نیاز بیگ سے لے کر شالیمار باغ تک اور شمالی لاہور سے لے کر شاہدرہ تک اور شاہدرہ سے لے کر گجومتہ تک پورے شہر کی ٹریفک بالکل جام ہو کر رہ گئی۔ میں چونکہ بذاتِ خود اس ٹریفک جام میں تقریباً پانچ گھنٹے پھنسا رہا۔ اس لئے میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس ٹریفک جام میں ایمبولینسیں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ بہت سی گاڑیوں، بسوں اور ویگنوں میں چھوٹے بچے رو اور چلا رہے تھے۔ بوڑھے اور ضعیف لوگ نڈھال تھے اور وہاں سے نکلنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ اتنی خوفناک صورتحال دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور فطری طور پر یہ خیال میرے ذہن میں آیا کہ چند ہزار لوگوں کی تفریح کے لئے پورے شہر کو عذاب میں مبتلا کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ اور یہ کیسی تفریح ہے جس نے لاکھوں لوگوں کو مصیبت میں مُبتلا کر رکھا ہے۔ مریض جاں بلب ہیں، بچے بے بسی سے رو رہے ہیں۔ بوڑھے بے ہوش ہو رہے ہیں۔ کیا ایسی تفریح کو تفریح کہا جا سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اگر وہ شہر میں ایسے کرکٹ میچ کروانا چاہتی ہے تو ساتھ یہ گارنٹی بھی دے کہ کسی علاقے، کسی سڑک پر ٹریفک جام نہیں ہو گی۔ بصورتِ دیگر ایسے میچ نہ کروائے جائیں۔ جن سے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اگر جانی نقصان کے پیشِ نظر بسنت منانے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو اسی خطرے کے پیشِ نظر کرکٹ میچ کیوں منسوخ نہیں کئے جا سکتے؟…جب تک حکومت اس بات کو یقینی نہ بنا لے کہ کرکٹ میچ کے دوران کسی سڑک کو بند نہیں کیا جائے گا اور شہر میں ٹریفک جام نہیں ہو گی تب تک میچ نہ کروائے جائیں…